جواب
رفع مسیح؈ کے بارے میں جو کچھ میں نے کہا ہے،وہ صرف یہ ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ سیّدنا مسیح ؈کے جسداً آسمان پر اٹھا لیے جانے کی تصریح نہیں کرتے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اس مفہوم کے متحمل بھی نہیں ہیں ،بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ محض ان الفاظ کی بنا پر قطعیت کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ قرآن مجید رفع الی السماء کی تصریح کررہا ہے۔لہٰذا قرآن کی تفسیر میں ہم اتنی ہی بات کہنے پر اکتفا کریں گے جو اﷲ تعالیٰ نے فرمائی ہے۔یعنی اﷲ تعالیٰ نے ان کو ’’اٹھا لیا‘‘۔ اس کے مختلف معانی میں سے کسی ایک کی تعیین قرآن سے باہر جاکر تو کی جاسکتی ہے،مگر بہرحال اسے قرآن کی تصریح نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس پر اگر آپ کو ابہام کی شکایت ہے تو میں عرض کروں گا کہ اس قصے کے بعض دوسرے اجزا بھی مبہم طریقے سے ہی بیان کیے گئے ہیں ۔ مثلاًایک یہی امر کہ حضرت عیسیٰ؈ جب دشمنوں کی قید میں تھے اور انھوں نے آپ کو صلیب دینے کا فیصلہ کیا تو آخر وہ کیا صورت پیش آئی کہ وہ آپ کی جگہ کسی اور کو صلیب دے بیٹھے اور اس شبہہ میں رہے کہ ہم نے عیسیٰ بن مریمؑ کو صلیب دی ہے۔نہ صرف وہ بلکہ خود پیروان عیسیٰ؈ بھی اسی شبے میں پڑ گئے۔ کیا شُبِّہَ لَھُمْ کی کوئی تفصیلی کیفیت قرآن کو ان میں کہیں ملتی ہے؟ اب اگر ہم کسی بیرونی ذریعے سے اس کی کوئی تفصیل کریں تو ایسا کرسکتے ہیں ۔مگر یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ تفصیل خود قرآن بیان کررہا ہے۔ (ترجمان القرآن،دسمبر۱۹۵۵ء)