جواب
اس سوال میں جس فتنے کا ذکر کیا گیا ہے،اُس کا منشا تو خود اُس کے موضوع و مضمون ہی سے ظاہر ہے۔اس کے مصنف کا صاف مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ رمضان میں روزے رکھنے کی ’’مصیبت‘‘ سے خود بھی بچیں اور اپنے ہم مشرب ’’صاحب لوگوں ‘‘کو بھی بچائیں ۔عام فساق غنیمت ہیں کہ کھلی کھلی نافرمانی کا رویہ اختیار کرتے ہیں اور جو نافرمانی کرنا چاہتے ہیں ،اُسے بے محابا کر گزرتے ہیں ۔ان میں کم ازکم یہ مکاری موجود نہیں ہے کہ خدا کی نافرمانی کرنے کے لیے خود خدا ہی کی کتاب کو حجت بنائیں ۔ لیکن یہ نرالی قسم کے فساق وہ ہیں کہ اپنے فسق وفجور کے لیے قرآن کو آڑ بناتے ہیں ، اور قرآن سے یہ خدمت لینے ہی کے لیے انھوں نے اس کا رشتہ حدیث سے توڑا ہے، تاکہ اس کی آیات کو جیسے چاہیں معنی پہنائیں ۔ان لوگوں کو آج کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے،جس جس طرح چاہتے ہیں ،خلق خدا کو خدا کی کتاب کا نام لے لے کرخدا کے دین سے پھیرتے ہیں ۔ پہلے انھوں نے ’’دو قرآن‘‘ تصنیف کیے تھے،پھر’’ دو اسلام‘‘وضع کیے۔ آگے چل کر یہ ’’دو خدا‘‘ بھی بناڈالیں تو کون ان کا ہاتھ پکڑ سکتا ہے۔
روزوں کے بارے میں قرآن سے جو غلط استدلال انھوں نے کیا ہے،اُس کی غلطی واضح کرنے کے لیے سب سے پہلے ہم خود قرآن کی شہادت پیش کرتے ہیں ۔ زیر بحث آیات کالفظی ترجمہ یہ ہے:
’’اے لوگو!جوایمان لاے ہو،لکھ دیے گئے تم پر روزے جس طرح لکھے گئے تھے تم سے پہلے کے لوگوں پر،تاکہ تم پرہیز گاری کرو۔ روزہ رکھنا چند گنے چنے دنوں کا، پھرجو کوئی تم میں سے مریض ہو،یا سفرپر ہو،تو پورا ہونا چاہیے شمار دوسرے دنوں سے۔ اور جو لوگ اس کی(یعنی روزے کی) طاقت رکھتے ہوں ،ان پر فدیہ ہے ایک مسکین کا کھانا۔پھرجو کوئی رضاکارانہ بجا لاے نیکی تو وہ بہتر ہے اسی کے لیے۔ اور یہ کہ تم روزہ رکھو، یہ بہتر ہے تمھارے لیے اگر علم رکھتے ہو۔ ماہِ رمضان وہ ہے جس میں نازل کیا گیاقر آن، راہ نمابنا کر انسانوں کے لیے، اور روشن آیات لیے ہوئے ہدایت اور تفریق حق وباطل کی۔ پس جو پائے تم میں سے اس مہینے کو، تو چاہیے کہ اس کے روزے رکھے۔اور جو مریض ہو یا سفر پر ہو،تو پورا ہونا چاہیے شمار دوسرے دنوں سے۔‘‘({ FR 2218 })
(ملاحظہ فرمایئے سورۂ البقرہ،رکوع ۲۳، اوراصل سے مقابلہ کرکے خوب اطمینان کرلیجیے کہ اصل اور ترجمے میں معنی کے لحاظ سے کوئی فرق تو نہیں ہے)۔
اس عبارت کو جو شخص خالی الذہن ہوکر پڑھے گا،اُس کے دل میں لازماًپہلا سوال یہ پیدا ہوگا کہ اگر یہ پوری عبارت ایک ہی سلسلۂ تقریر کی ہے جو بیک وقت ارشاد ہوئی تھی، تو اس میں پہلے ہی یہ کیوں نہ کہہ دیا گیا کہ ماہ رمضان میں تم کو یہ نعمت دی گئی تھی اس لیے تم میں سے جو اس کو پائے،اُسے چاہیے کہ اس مہینے کے روزے رکھے؟آخر یہ کیا اندازِ بیان ہے کہ پہلے کہا’’روزہ رکھنا چند گنے چنے دنوں کا‘‘پھر تین چار فقروں میں روزوں کے متعلق بعض احکام بیان کیے،پھر بتایا گیا کہ وہ گنے چنے دن رمضان کے ہیں اور رمضان کو اس کام کے لیے اس وجہ سے منتخب کیا گیا ہے اور اس پورے مہینے کے روزے رکھنے چاہییں ۔ ایک مربوط سلسلہ تقریر میں شاید ایک اناڑی بھی اپنی بات یوں ادا نہ کرتا، بلکہ یوں کہتا کہ اگلی قوموں کی طرح تم پر بھی روزے فرض کیے گئے ہیں اور رمضان کے مہینے میں تم کو قرآن کی نعمت دی گئی ہے اس لیے یہ فرض روزے تم اس مہینے میں رکھو۔ اس کے بعد اس کو جو کچھ احکام بیان کرنے ہوتے وہ بیان کردیتا۔
دوسرا سوال ایک خالی الذہن ناظر کے دل میں یہ پیدا ہوگا کہ اس سلسلہ عبارت میں جب پہلے یہ فقرہ آچکا تھا کہ ’’جو کوئی تم میں سے مریض ہو،یا سفرپر ہو، تو پورا ہونا چاہیے شمار دوسرے دنوں سے‘‘ تو اسی فقرے کو بعد میں پھر دہرانے کی کیا حاجت تھی؟اور اگر فی الواقع اس کا دہرانا ضروری تھا تو پھر یہ فقرہ بھی کیوں نہ دہرایا گیا کہ’’جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں ،ان پر فدیہ ہے ایک مسکین کا کھانا‘‘۔ حقیقت میں ضرورت تو دونوں میں سے ایک کو بھی دہرانے کی نہ تھی۔لیکن ایک کو دہرانا اور دوسرے کو نہ دہرانا تو ایک معما سا محسوس ہوتا ہے۔
تیسرا سوال جو اُس کے دل میں کھٹکے گا وہ یہ ہے کہ’’ماہ رمضان وہ ہے‘‘ سے پہلے کی عبارت اور اس کے بعد کی عبارت کا مضمون ایک دوسرے سے صریحاً متنا قض نظر آتا ہے۔پہلا مضمون صاف طور پر یہ کہہ رہا ہے کہ جو شخص طاقت رکھنے کے باوجود روزہ نہ رکھے،وہ فدیہ دے دے،لیکن اگر وہ روزہ ہی رکھے تویہ اُسی کے حق میں اچھا ہے۔اس کے بالکل برعکس دوسرا مضمون یہ ظاہر کررہا ہے کہ جو شخص ماہ رمضان کو پائے وہ اس میں ضرور روزے رکھے اور اس لازمی حکم کو یہ بات مزید تقویت پہنچا رہی ہے کہ اس حکم کے بعد اس رعایت کا تو اعادہ کردیا گیا ہے جو پہلے مضمون میں مریض اور مسافر کو دی گئی تھی،مگر اس رعایت کو ساقط کردیا گیا جو اوپر روزے کی طاقت رکھنے والے کو دی گئی تھی۔ایک معمولی عقل وخرد رکھنے والے قانون ساز سے بھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ ایک ہی معاملے میں وہ بیک وقت دومختلف احکام دے تو پھر بھلا یہ فعل اﷲ تعالیٰ کے شایان شان کیسے ہوسکتا ہے؟
پہلے دو سوالات صرف سوالات ہی ہیں ۔ لیکن یہ آخری سوال تو ایک سخت اعتراض ہے جو اس عبارت پر وارد ہوتا ہے، اورمیں نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص حدیث سے مدد لیے بغیر اسے کیسے رفع کرسکتاہے۔جو لوگ حدیث کی مدد کے بغیر قرآن کو سمجھنے کے مدعی ہیں ،اور حدیث کو احکام دین کا ماخذ اور قرآن کی مستند شرح ماننے سے انکار کرتے ہیں ،ان سے پوچھیے کہ ان کے پاس ان سوالات اور اس اعتراض کا کیا جواب ہے؟
اب دیکھیے کہ حدیث کس طرح ہمیں قرآن مجید کے اس مقام کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ جن لوگوں کے سامنے قرآن کے یہ احکام نازل ہوئے تھے،ان کا بیان یہ ہے کہ اس عبارت کا ایک حصہ جو’’اے لوگو‘‘ سے شروع ہوکر’’اگر تم علم رکھتے ہو‘‘ پر ختم ہوتا ہے،ابتداء ًنازل ہوا تھا، اور دوسرا حصہ اس کے ایک سال بعد نازل ہوا۔ پہلے سال روزے فرض کرتے وقت یہ رعایت رکھی گئی تھی کہ آدمی روزے کی طاقت رکھنے کے باوجود اگر روزہ نہ رکھے تو فدیہ دے دے۔ مگر دوسرے سال اس رعایت کو منسوخ کردیا گیا۔البتہ مسافر اور مریض کے لیے سابق رعایت بحال رکھی گئی۔
اس بیان میں نہ صرف یہ کہ سارے اشکالات رفع ہوگئے،بلکہ یہ بات بھی سمجھ میں آگئی کہ دوسرے سال آخری اور قطعی حکم دیتے ہوئے یہ تمہید کیوں اُٹھائی گئی کہ یہ رمضان کامہینہ وہ ہے جس میں تمھیں قرآن جیسی نعمت دی گئی ہے۔اب بات سمجھ میں آگئی کہ پہلے اﷲ کی اس نعمت کا احساس دلایا گیا، پھر حکم دیا گیا کہ اس نعمت کے شکریے میں تم کو اس مہینے کے روزے ضرور رکھنے چاہییں ۔
محدثین ومفسرین نے یہ تشریح متعدد صحابہ اور تابعین سے نقل کی ہے۔ مثلاً امام احمد بن حنبلؒ،حضرت معاذ بن جبل سے ایک طویل تشریحی بیان نقل کرتے ہیں جس میں وہ فرماتے ہیں کہ نماز اور روزہ، دونوں کی موجودہ صورت بتدریج قائم کی گئی ہے۔نماز میں پہلے بیت المقدس کی طرف رُ خ کیا جاتا تھا۔پھر مکے کی طرف رُخ پھیرا گیا۔پہلے لوگ ایک دوسرے کو نماز کے وقت اطلاع دیتے تھے۔پھر اذان کا طریقہ مقرر کیا گیا۔پہلے طریقہ یہ تھا کہ اگر ایک شخص بیچ کے کسی مرحلے پر آکر جماعت میں شریک ہوتا تھا تو اپنی نماز کا چھوٹا ہوا حصہ ادا کرنے کے بعد امام کی پیروی شروع کرتا تھا۔پھر یہ طریقہ مقرر کیا گیا کہ جماعت میں جس مرحلے پر بھی آکر شریک ہو،امام کی پیروی میں نماز پڑھنی شروع کردو۔پھر امام کے سلام پھیر دینے کے بعد اُٹھ کر اپنی نماز پوری کرو۔ اسی طرح روزے کے احکام بھی بتدریج آئے ہیں ۔ جب نبی ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺہر مہینے تین دن کے روزے رکھتے تھے اور ایک روزہ محرم کی دسویں کو رکھا کرتے تھے۔ پھر اﷲ نے رمضان کے روزے فرض کیے،مگر یہ رعایت رکھی کہ جو روزہ نہ رکھے،وہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔اس کے بعد حکم آیا کہ رمضان کے روزے ضرور رکھے جائیں ، اور تندرست مقیم آدمی کے لیے فدیے کی رعایت منسوخ کردی۔ پہلے لوگ افطار کے بعد اُس وقت تک کھانا پینا،مباشرت کرنا جائزسمجھتے تھے جب تک سو نہ جائیں ۔سونے کے بعد وہ سمجھتے تھے کہ دوسرے دن کا روز ہ شروع ہوگیا۔ اگرچہ اس باب میں کوئی صریح حکم نہ تھامگر لوگ ایسا ہی سمجھے ہوئے تھے۔بعد میں حکم آیا کہ اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمْ۔۔۔ اِلٰی قَوْلِہٖ ۔۔۔ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ۔ ({ FR 2052 })
اس مضمون کی تائید میں بخاری، مسلم، ابو دائود اور دوسرے محدثین نے متعدد روایات نقل کی ہیں جو حضرت عائشہ، حضرت عبداﷲ بن عمر، حضرت عبداﷲ بن مسعود اور حضرت سلمہ بن اکوع؇ سے مروی ہیں ۔({ FR 2219 }) مشہور مفسر ابن جریر طبریؒ (متوفی۰ا۳ھ) نے پوری سند کے ساتھ جن صحابہؓ اور تابعینؒ سے اس کی تائید میں روایات نقل کی ہیں ،ان کے نام یہ ہیں :معاذ بن جبلؓ، ابن عمرؓ، ابن عباسؓ، سلمہ بن اکوعؓ، علقمہؒ، حسن بصریؒ،شعبیؒ، عطاءؒ، زُہریؒ۔ ان میں سے ایک روایت میں وہ حضرت معاذ بن جبلؓ کی یہ تصریح نقل کرتے ہیں کہ پہلے چوں کہ اہل عرب روزوں کے عادی نہ تھے اور روزہ ان پر سخت گراں گزرتا تھا، اس لیے ان کو یہ رعایت دی گئی تھی کہ رمضان میں جس دن روزہ نہ رکھیں ، اُس دن کسی مسکین کو کھانا کھلادیں ۔ بعد میں تاکیدی حکم آگیا کہ پورے مہینے کے روزے رکھو، اِلاّ یہ کہ تم مریض ہو یا سفرپر ہو۔({ FR 2053 }) ایک اور روایت میں وہ ابن عباسؓ کی یہ تصریح نقل کرتے ہیں کہ پہلے سال کے روزوں میں اﷲ تعالیٰ نے فدیے کی رخصت رکھی تھی،مگر دوسرے سال جو حکم آیااُس میں مریض ومسافر کی رعایت تو بحال تھی لیکن مقیم کے لیے فدیے کی رعایت کا ذکر نہ تھا، اس لیے یہ رعایت منسوخ ہوگئی۔({ FR 2054 })
اس تشریح سے ہر شخص خود اندازہ کرسکتا ہے کہ جو لوگ حدیث سے بے نیاز ہوکر،بلکہ احادیث کو حقارت اور تضحیک کے ساتھ پھینک کر قرآن سے من مانے احکام نکال رہے ہیں ،وہ کس طرح خود گمراہ ہورہے ہیں اور عام مسلمانوں کو گمراہ کررہے ہیں ۔ (ترجمان القرآن ، اپریل مئی ۱۹۵۳ء)