ماہنامہ زندگی ماہ اکتوبر ۱۹۶۸ء مطالعہ سے گزرا۔ صفحہ ۳۸ پر امام ابوحنیفہؒ کی ذہانت سے متعلق یہ واقعہ درج ہے
’’ایک شخص نے یہ قسم کھالی کہ ماہ رمضان میں دن کے وقت اپنی بیوی سے جماع کرے گا۔ اس قسم کے بعد وہ پریشان ہوا، لیکن کسی فقیہ کی سمجھ میں اس کا جواب نہ آیا۔ جب امام ابوحنیفہؒ سے اس مشکل کاذکر آیا توانھوں نے فوراًکہا اس سے کہوکہ وہ بیوی کو لے کر سفرکرلے اور مسافرت میں اپنی قسم پوری کرلے۔(سفرمیں رمضان کا روزہ ترک کرنے کی رخصت ہے۔ اس لیے اس کو اپنی قسم پرعمل کرنے کا موقع مل جائے گا۔)‘‘
اگرواقعی یہ حل امام ابوحنیفہؒ نے بتایا تھا تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ حل نہ تھا بلکہ گناہ کی بات تھی اور زبردست غلطی تھی۔ کیوں کہ کوئی شخص ایک غلط قسم کھالے تو کیا اسلام یہ سکھاتا ہے کہ وہ اس قسم کو پورا کرلے؟ یہ حل تو ویسا ہی ہے جیسے کوئی مسلمان یہ قسم کھالیتا ہے کہ وہ کسی مسلمان کو قتل کردے گا اور پھر اپنی غلطی کا احساس کرکے کسی فقیہ سے مسئلہ دریافت کرتا ہے تو کوئی فقیہ یا مفتی اسی نوعیت کی راہ تلاش کرکے جواب دیتا ہے کہ تو کسی بے نمازی کو قتل کردے کیوں کہ امام شافعیؒ قصداً نماز ترک کرنے والے کو قتل کا حکم دیتے ہیں۔ کیا یہ جواب صحیح ہوگا؟ تعجب ہے، بے انتہا تعجب ہے بلکہ مجھے یقین نہیں آرہاہے کہ امام ابوحنیفہؒ جیسی شخصیت نے وہ جواب دیاہوگا جسے آپ حضرات حاضر دماغی وحاضر جوابی پر محمول کرتے ہوئے داد تحسین دے رہے ہیں۔ نہیں معلوم کس تعلیم وتربیت نے آپ حضرات کو اس طرح داد دینے پر مجبور کردیا ہے جب کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد موجود ہے کہ اگر کوئی کسی غلط کام یاگناہ کی قسم کھالے تو وہ قسم توڑدے اور اس کا کفارہ ادا کردے۔ اور سورۂ المائدہ کی آیت ۸۹ بھی ملاحظہ فرمالیجیے۔ پھر محض روزہ نہ رکھنے کے لیے رمضان میں سفر کرنے کی بات بتانا بھی عجیب ہے۔ خواہ مخواہ کا سفر کرکے روزہ نہ رکھنا ڈبل گناہ ہوگا۔ آپ تشفی بخش جواب دیں گے میرا موقف غلط ہے یا صحیح ؟ اگر میرا اندازہ فکر صحیح ہے تو آئندہ ایسے واقعات کو بغیر غوروفکرکے زیر اشاعت نہ لائیں۔
جواب
آپ کے دومزید خطوط ملے جس میں آپ نے اصرار کیا ہے کہ میں آپ کے تنقیدی خط کا ضرورجواب دوں۔ آپ نے اپنی تنقید میں جو اندازاختیارکیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہواتھا کہ جواب دینا بے کار ہے۔ آپ نے جوش تنقید میں یہ بھی نہیں دیکھا کہ اس جواب پر داد تحسین ہم لوگوں نے نہیں دی ہے بلکہ امام رازیؒ نے اپنی تفسیر میں دی ہے۔ ہم نے صرف اس کا ترجمہ کیا ہے۔ان واقعات کے اخیر میں یہ نوٹ لکھا گیا تھا
’’یہ واقعات امام رازی نے علم وفہم کی فضیلت پردلائل دیتے ہوئے اپنی تفسیر کبیر میں نقل کیے ہیں اور ہم ان کے ترجمے قارئین زندگی کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔ ‘‘ (زندگی اکتوبر۱۹۶۸ء،صفحہ ۳۹)
آپ نے اپنی تنقید میں ہماری تعلیم وتربیت پرطنز کرنا بھی ضروری سمجھا حالاں کہ ہمارا جرم صرف ترجمہ کرنے کا تھا۔ آپ کے اصرار کی بناپر چند باتیں عرض کرتاہوں
۱-آپ نے رمضان میں دن کے وقت بیوی سے جماع کرنے کی قسم کو کسی مسلمان کو قتل کرنے کی قسم کے برابر سمجھ لیا ہے۔ یہ بات صحیح نہیں ہے، دونوں میں بہت فرق ہے۔
۲- امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حکم نہیں دیا ہے کہ بے نمازی مسلمان کو جو مسلمان چاہے قتل کردے۔ کیوں کہ حد شرعی جاری کرنا حکومت کاکام ہوتاہے۔ جب تک وہ حکم نہ دے کوئی شخص بطور خود حدجاری نہیں کرسکتا۔ یہی حکم تعزیری سز ا کا بھی ہے۔ اس لیے اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان کو قتل کرنے کی قسم کھالے تو کوئی بھی مفتی اس کو یہ نہیں بتاسکتا کہ کسی بے نمازی کو قتل کردے، یہاں تک کہ کوئی شافعی اور حنبلی مفتی بھی یہ راہ نہیں دکھاسکتا۔شافعی اورحنبلی مذہب میں بھی کسی بے نمازی کو قتل کرنے کی جائز شکل صرف یہ ہوگی کہ اسلامی حکومت اس کافیصلہ کرے اور اس کو قتل کی سزادے۔ اس لحاظ سے بھی امام ابوحنیفہؒ کے جواب پرآپ کا اعتراض غلط ہے۔
۳- سورۂ المائدہ کی جس آیت کا آپ نے خط میں حوالہ دیا ہے اس کا ایک ٹکڑا یہ بھی ہے وَاحْفَظُوْااَیْمَانَکُمْ (اپنی قسموں کی حفاظت کرو)۔ اس ٹکڑے سے یہ بھی واضح ہوتاہے کہ قسم کھالینے کے بعد اس کا اصل حکم یہ نہیں ہے کہ اس کو توڑدیاجائے بلکہ یہ ہے کہ اس کی حفاظت کی جائے اوراس کو پوراکیا جائے، کیوں کہ قسم ایک عہدوپیمان ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کو توڑدینے پرکفارے کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ قسم توڑکر کفارے کی سزا برداشت کرنا اس وقت واجب ہوتا ہے جب کسی ایسی معصیت کی قسم کھائی گئی ہو کہ اس کو توڑے بغیر قسم کھانے والا شخص اس معصیت سے نہ بچ سکتا ہو۔ اس کی وہی مثال لے لیجیےجو آپ نے دی ہے۔ یعنی اگر کوئی مسلمان یہ قسم کھالے کہ وہ کسی مسلمان کو قتل کردے گا تواس پرواجب ہوگا کہ اپنی قسم پر عمل نہ کرے اور اس کا کفارہ اداکردے۔ لیکن اگرکسی ایسی معصیت کی قسم کھائی گئی ہے کہ قسم توڑے بغیر اس سے بچنے کی جائز تدبیر موجود ہوتو کفارے کی سزا سے محفوظ رہنے کے لیے اس جائز تدبیر پرعمل کرکے اپنی قسم پوری کی جاسکتی ہے۔
۴- اگر کوئی شخص غلط قسم کھالے تو اس کو اس کے وبال سے نکلنے کی جائز تدبیر بتاناگناہ نہیں بلکہ خیرخواہی اورثواب کاکام ہوگا۔
اگر آپ کو قسموں کے بارے میں تھوڑی سی معلومات بھی ہوتیں توآپ امام ابوحنیفہؒ کے جواب پراعتراض نہ کرتے یا کم سے کم آپ کی تنقید کا وہ انداز نہ ہوتا جو آپ نے اختیارکیا ہے۔اب اوپر کی چارباتوں کو سامنے رکھ کر سوچیے کہ امام ابوحنیفہؒ نے جو تدبیربتائی وہ ان کی ذہانت اور حاضر دماغی کی دلیل ہے یا نہیں ؟ یہ جواب توسب کے لیے آسان تھا کہ وہ اپنی قسم پوری نہ کرے اور کفارہ ادا کردے۔ اصل سوال تو یہ تھا کہ وہ کفارے کے وبال سےبھی بچ جائے اور اس کی قسم بھی پوری ہوجائے۔اسی سوال کو حل کرنے میں امام صاحب کی ذہانت کام آئی۔ اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہواکہ ایک جائز تدبیر سے اپنی قسم پوری کرنے اور کفارے کی سزا سے محفوظ رہنے کے لیے رمضان میں سفر کی رخصت حاصل کرنا نہ خواہ مخواہ ہے اور نہ کوئی گناہ۔
اس سوال کے تین جواب ہوسکتے تھے ایک یہ کہ وہ قسم پرعمل نہ کرے اور کفارہ ادا کرے۔ دوسرا یہ کہ گھر بیٹھے میاں بیوی روزہ ترک کردیں اور شوہر اپنی قسم پوری کرلے اور تیسرا وہ جو امام ابوحنیفہؒ نے دیا ہے۔ پہلے جواب میں مشکل یہ تھی کہ اس کو کفارے کی سزا برداشت کرنا پڑتی۔ دوسرے جواب کا نقص یہ ہےکہ اس طرح حالت قیام میں رمضان کا روزہ ترک کرنے کاگناہ اسے اپنے سرلینا پڑتا جو ایک مومن کے لیے کفارے کی سزا سے کم نہیں ہے۔ امام صاحب نے جو جواب دیا اس میں نہ کفارے کی سزا برداشت کرنا پڑتی ہے اور نہ حالت قیام میں ترک صوم کی معصیت کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے اور یہی ذہانت اور حاضردماغی کی دلیل ہے۔خدا کرےکہ اس تفصیل سے آپ کی الجھن دورہوجائے اور آپ سمجھ لیں کہ نہ امام ابوحنیفہؒ کا جواب غلط تھا نہ امام رازیؒ کا اسے اپنی تفسیر میں نقل کرنا غلط تھا اور نہ ہم نے اس کا ترجمہ کرکے کسی جرم کا ارتکاب کیاہے۔ (اگست ۱۹۶۹ء، ج ۴۳،ش۲)