روزے کی حالت میں  آنکھوں میں دواڈالنے کا حکم

روزے کی حالت میں آنکھوں میں دواڈالنے سے روزہ ٹوٹتا ہے یا نہیں ؟ بعض اوقات دوا کا اثر حلق میں محسوس ہوتاہے۔ احادیث اورائمہ فقہ کے مذاہب کی روشنی میں جواب دیجیے۔

جواب

آنکھوں میں دواڈالنے کامسئلہ میرے علم کی حدتک احادیث میں مذکورنہیں ہے۔ البتہ سرمہ لگانے کے بارے میں ایک حدیث ابودائود میں اور ایک حدیث ترمذی میں ہے۔ ابودائود کی حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ روزہ دار کو سرمہ لگانے سے بچنا چاہیے۔ اور ترمذی کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنکھوں میں کوئی تکلیف یاشکایت ہوتو سرمہ لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن دونوں حدیثیں ضعیف ہیں۔  ابودائود نے بھی اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے اور ترمذی نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ بلکہ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں کوئی صحیح حدیث مروی نہیں ہے۔ ائمہ فقہ کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ میں پہلے ترمذی اورابودائود سے فقہاء کے اختلافات نقل کرتاہوں۔ امام ترمذی نے لکھا ہے

’’بحالت صوم سرمہ لگانے کے مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض ائمہ فقہ اس کو مکروہ کہتے ہیں اور یہی سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک، امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے اور بعض اہل علم نے رخصت دی ہے اور یہی امام شافعی کا قول ہے۔‘‘

(ترمذی ص ۱۰۳،باب ماجاءفی الکحل للصائم )

امام ابودائود نے اپنی سند کے ساتھ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے

انہ کان یکتحل وھوصائم

’’حضرت انس بن مالک حالت صوم میں سرمہ لگاتے تھے۔‘‘

ابودائود نے اعمش کا یہ قول روایت کیا ہے

مارایت احدا من اصحابنا یکرہ الکحل للصائم

’’اعمش نے کہا کہ میں نے اپنے اصحاب میں کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ بحالت صوم سرمہ لگانے کو مکروہ سمجھتے ہوں۔ ‘‘

ابراہیم نخعی کے بارے میں لکھا ہے

وکان ابراھیم یرخص ان یکتحل الصائم بالصبر۔

(ابودائود،جلد۱،کتاب الصوم )

’’ابراہیم روزہ دار کورخصت دیتے تھے کہ وہ صبر (ایک خاص قسم کا سرمہ ) لگائے۔‘‘

اس تفصیل سے معلوم ہواکہ فقہا کے درمیان اختلاف کراہت وعدم کراہت میں ہے۔ سرمہ لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اس پر سب کا اتفاق ہے۔ فقہ حنفی میں بھی بحالت صوم سرمہ لگانا مکروہ نہیں ہے۔ ابودائود نے ابراہیم نخعی کا جومسلک نقل کیا ہے اس میں صبر کا لفظ ہے۔ایلواکو عربی میں صبر کہتے ہیں۔ اگر اس کے یہی معنی لیے جائیں تواس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ حالت صوم آنکھوں میں دواڈالنے کی اجازت دیتے تھے۔ جہاں تک احادیث کا تعلق ہے میری نظر سے کوئی ضعیف حدیث بھی نہیں گزری جس میں آنکھوں میں دواڈالنے کی اجازت یاعدم اجازت کاذکر ہو۔ البتہ فقہ حنفی میں یہ جزئیہ موجود ہے

ولواقطرشیئا من الدواء فی عینہ لایفطر صومہ عندنا وان وجد طعمہ فی حلقہ واذا بزق فرای اثر الکحل ولونہ فی بزاقہ عامۃ المشائخ علی انہ لا یفسد صومہ کذا فی الذخیرۃ وھوالاصح ھکذا فی التبیین۔

(فتاویٰ عالمگیری،ج۱،ص۲۰۳)

’’اگر روزہ دار نے کوئی دوا اپنی آنکھ میں ڈالی تو ہمارے نزدیک اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا اگرچہ اس کا مزہ وہ اپنے حلق میں پائے۔ اگر روزہ دارنے تھوکا اور اپنے تھوک میں سرمے کااثر اوراس کا رنگ دیکھا تو مشائخ فقہ حنفی کی اکثریت کا قول یہ ہے کہ اس کا روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ ایسا ہی کتاب ’ذخیرہ‘ میں لکھا ہے اوریہی زیادہ صحیح قول ہے اسی طرح کتاب’ تبیین‘ میں ہے۔‘‘

اس عبارت سے معلوم ہوتاہے کہ اس مسئلے میں تمام فقہائےاحناف کااتفاق نہیں ہے۔ بہرحال آنکھوں میں دوا ڈالنے یا سرمہ لگانے سے روزہ تونہیں ٹوٹتا لیکن روزہ دار کو بلاعذر سرمہ لگانے سے بچنا چاہیے۔اسی طرح آنکھوں میں دوا بھی بدرجۂ مجبوری ہی ڈالنی چاہیے۔                                                  (ستمبر واکتوبر۱۹۷۷ء،ج۵۹،ش۳۔۴)