رویت ہلال کامسئلہ

ایک استفسارپیش خدمت ہے۔ امیدہے کہ جواب سے پہلی فرصت میں مستفیض فرمایا جائے گا۔ ۱۱؍جنوری ۱۹۶۷ء کو ساڑھے آٹھ بجے شب پاکستان ریڈیو کی اطلاع پراور اسی رات کو ساڑھے گیارہ بجے سری نگر ریڈیو کی اطلاع پر ۱۲؍جنوری ۱۹۶۷ء کو بعض مقامات پر عید منائی گئی۔ ہندوستان کے مرکزی شہروں میں ریڈیو کی اطلاعوں کو نہیں ماناگیااور عیدالفطر ۱۳؍جنوری ۱۹۶۷ء کو منائی گئی۔سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے جمعرات کو عیدمنائی کیا ان کو ۱۲؍جنوری کا قضاروزہ رکھنا پڑے گا؟ اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب میں عید۱۱؍جنوری۱۹۶۷ء یعنی پاکستان سے بھی ایک روزقبل ہوچکی ہے، جب کہ سعودی عربیہ اورہندوستان کے اوقات میں صرف چارگھنٹوں کا فرق ہے۔ جواب دلیل کی روشنی میں جلدہی عنایت فرمائیں کیوں کہ یہاں اس بارے میں بہت انتشارپایا جارہاہے۔یہ بھی بتائیے کہ وہ کیا اصول او رطریقہ کار ہے جس کی بنیادپر آئندہ عید کرنے نہ کرنے کا فیصلہ کیا جایاکرے؟

جواب

آپ نے جو سوال کیا ہے پہلے میں اس کے بارے میں چنداصولی باتیں عرض کرتاہوں۔

۱- شریعت نے ہمیں اس کی کوئی ترغیب نہیں دی ہے کہ تمام دنیا میں یا کسی بڑے ملک کے ہرحصے میں ایک ہی دن روزہ رکھاجائے اور عیدمنائی جائے، بلکہ صحیح حدیث سے یہ معلوم ہوتاہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ملک شام کی رویت ہلال حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مدینہ منورہ میں تسلیم نہیں کی۔حالاں کہ چاند خو د حضرت معاویہؓ نے اور دوسرے بہت سے لوگوں نے دیکھا تھا اور اس کی مستند خبر مدینہ منورہ پہنچ چکی تھی۔اورجب ان سے کہا گیا کہ آپ حضرت معاویہؓ کی رویت بھی تسلیم نہیں کریں گے توانھوں نے جواب دیا کہ ہاں تسلیم نہیں کریں گے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہی حکم دیاہے۔یہ حدیث اختلاف مطالع کے اعتبارپر واضح دلیل ہے۔صحیح مسلم کتاب الصوم میں یہ حدیث پڑھی جاسکتی ہے۔

۲- جو بات صحیح احادیث سے ثابت اورتمام علمائے امت کے درمیان مسلمہ ہے، وہ یہ ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھا جائے اور چاند دیکھ ہی کر عیدمنائی جائے۔

۳-نماز کے اوقات میں آفتاب کے مطالع کا اختلاف تمام فقہاء وعلماء کے نزدیک معتبر ہے۔ اس لیے کہ کسی ملک میں سورج طلوع ہورہاہوتاہے اور کسی ملک میں غروب،کہیں چاشت کا وقت ہوتاہے او ر کہیں سورج ڈھل چکا ہوتاہے۔ اسی طرح حج کے وقت کی تعین میں بالاتفاق مکہ معظمہ کامطلع معتبر ہے۔یہ بات بھی مشاہدے سے ثابت ہے کہ آفتاب وماہتاب کے درمیان فاصلے کے قرب وبعد کا رویت ہلال پراثر پڑتا ہے اورتمام دنیا میں ان دونوں کے درمیان فاصلہ یکساں نہیں ہوتا۔اس لیے ناممکن ہے کہ تمام دنیا میں ایک ہی دن ہلال نظر آجائے۔عملاً یہی ہوتاہے اور یہی ہوگا کہ کہیں چاند نظر آئے گا اور کہیں اس کا نظر آنا ممکن نہ ہوگا۔

۴- آج کل مسلمان حکومتوں میں بھی رویت ہلال کا اعلان جن بنیادوں پرکیا جارہاہے وہ بہت سے لوگوں کے لیے ناقابل فہم ہورہاہے۔ حدیہ ہے کہ سعودی عربیہ میں بھی جو اعلان ہوتاہے اس کی بنیاد معلوم نہیں ہے۔وہاں کے بارے میں کئی فن داں ماہرین اپنی تشویش کا اظہارکرچکے ہیں اور یہ چیز پریس میں بھی آچکی ہے۔اس سلسلے کا ایک مضمون ’رویت ہلال‘ جولائی ۱۹۶۶ء کے ماہنامہ زندگی میں  ’ترجمان القرآن‘ سے اخذ کرکے ہم نے شائع کیاتھا۔شاید آپ کی نظر سے گزرا ہواور نہ گزرا ہوتواس کو ضرور پڑھ لیجیے۔یہ بات تحقیق طلب ہے کہ حجاز اور ہندوستان میں دودنوں کافرق ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ اگر ہوسکتا ہے تو یہ بات اختلاف مطالع کا اعتبار کرنے پرایک اور مضبوط دلیل ہوگی۔

۵- بلاشبہ ریڈیو بھی ایک جگہ کی رویت ہلال کی خبر دوسری جگہوں تک پہنچانے کا ایک بڑا ذریعہ ہے لیکن محض ریڈیو کی اطلاع ہرجگہ، ہرحال میں قابل تسلیم نہیں ہوگی۔اس کے بھی کچھ شرائط ہیں۔

۶- ریڈیو پاکستان اور ریڈیو سری نگر کی خبریں تمام ہندوستان میں سنی گئی ہوں گی لیکن جیسا کہ آپ نے لکھا ہے ہندوستان کے بڑے اور مرکزی شہروں میں اس کو تسلیم نہیں کیا گیا حالاں کہ ان شہروں میں علماءکی بھی کثیر تعداد موجود ہے اوررویت ہلال کمیٹیاں بھی قائم ہیں۔

۷- پاکستان کے ایک اخبار روزنامہ وفاق ۱۵؍جنور ی ۱۹۶۷ء میں، میں نے پڑھاکہ خود پاکستان میں حنفی، اہل حدیث اور شیعہ تینوں طبقوں کے علمانے ۲۹ کی رویت رد کردی تھی۔ وہاں جمعرات کی عیدوہاں کی حکومت کے من مانی اعلان کا نتیجہ تھی اور وہاں بھی انتشار رہا۔بہت سے مقامات پرعلماء کے فیصلے کے مطابق جمعہ کو عیدمنائی گئی۔ اوران کے فیصلے کی روشنی میں ان لوگوں کو ایک دن کا قضا روزہ رکھناپڑے گا جنہوں نے جمعرات کو عیدمنائی تھی۔

۸-یہ بات اسلامی اجتماعیت کے خلاف ہوگی کہ ہرمسلمان محض ریڈیو کی اطلاع سن کر بطورخود روزہ توڑدے یا عیدمنالے۔ میرے علم میں ہے کہ چند سال پہلے ایک دیہات میں ریڈیو پاکستان کی یہ اطلاع سن کر کہ آج وہاں عیدمنائی جارہی ہے بعض مسائل سے ناواقف افراد نے نہ صرف یہ کہ خود روزہ توڑدیا بلکہ متعدد افراد کے روزے تڑوادیے۔ یہ دین کی وقعت کاثبوت نہیں بلکہ اس کی بےوقعتی کانشان ہے۔

مذکورہ بالا اصولوں اورموجودہ صورت حال میں جن لوگوں نے جمعرات کو عید منالی انھوں نے صحیح کام نہیں کیا ایسے لوگوں کو ایک دن کا قضا روزہ رکھنا چاہیے۔

عدم رویت کی صورت کی مستند خبرمل جائے تو عید کی جائے اور نہ ملے تو نہ کی جائے۔ رہی ریڈیوکی اطلاع تواس کے بارے میں میراخیال ہے کہ اگر ہندوستان کے کسی مرکزی شہر کلکتہ،پٹنہ،لکھنؤ، دہلی کی کسی مستند اور قابل اعتماد رویت ہلال کمیٹی یا کسی مستند ادارے (جیسے امارت شرعیہ صوبہ بہار) کی طرف سے آل انڈیا ریڈیو رویت ہلال کے تسلیم کرلیے جانےکا اعلان کرے تو اس پر اعتماد کرکے فیصلہ کیاجاسکتا ہے۔ لیکن اس میں بھی شرط یہ ہے کہ اعلان کے الفاظ آپ خود سن لیں یا معتبر اشخاص یہ بتائیں کہ انائونسر نے اپنے محکمے کی طرف سے اعلان نہیں کیا ہے بلکہ فلاں مستند کمیٹی یا ادارے کی طرف سے کیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ رویت ہلال کے سلسلے میں اب تک آل انڈیاریڈیوکی کسی جھوٹی اطلاع کی مثال مجھے معلوم نہیں ہے۔                                   (مارچ ۱۹۶۷ء، ج ۳۸، ش۳)