ہمارے قصبہ میں ۲۹؍شعبان ۸۸ہجری کو چاند نظر نہیں آیا۔ مطلع ابرآلود تھا۔ ہم اس مسئلے سے واقف ہیں کہ چاند کسی وجہ سے نظر نہ آئے توشک اور تذبذب میں پڑے بغیر ۳۰؍دن مکمل کرکے روزہ رکھاجائے۔یہ مسئلہ فتاویٰ عالم گیری میں موجود ہے۔ لیکن اب جب کہ ہرچہارطرف لوگ روزہ جمعہ سے شروع کرچکے ہیں۔ ہم لوگ کیا کریں۔ کیا رمضان کے بعد ہم پر ایک روزے کی قضا واجب ہوگی؟ جب ہمارے قصبے میں چاند نہیں ہوا اور ہم نے فتاویٰ عالم گیری کے مطابق ۳۰؍دن مکمل کرکے روزہ رکھا توہم پر ایک دن کی قضاکیوں واجب ہوگی؟ ایسے مقامات پر جہاں ریڈیووغیرہ کا انتظام نہیں اور نہ کوئی بروقت اطلاع مل سکتی ہے وہ لوگ کیا کریں ؟
جواب
اگرکسی مقام پر چاند نہ دیکھا جائے تو ۳۰دن پورے کرکے روزہ رکھنے کامسئلہ صرف فتاویٰ عالم گیری ہی میں نہیں ہے بلکہ فقہ کی تمام کتابوں میں ہے۔اس لیے کہ یہ مسئلہ کسی مجتہد کےاجتہاد پر مبنی نہیں بلکہ صراحتاً احادیث میں موجود ہے۔ لیکن اس سلسلے میں دوباتیں اورذہن نشین کرلیجیے۔ ایک یہ کہ ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو‘‘ کامطلب یہ نہیں ہے کہ جب تک کوئی شخص خود چاند نہ دیکھ لے وہ روزہ نہ رکھے، بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ رویت ہلال ثابت ہوجائے توروزہ رکھو۔ دوسری بات یہ کہ رویت ہلال کا ثبوت خود اس مقام پر چاند دیکھنے سے بھی ہوتا ہے جہاں کوئی شخص مقیم ہے اور کہیں باہر سے معتبر خبر آنے سے بھی ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ فقہائے احناف نے ۲۹؍شعبان کو رویت نہ ہونے کی صورت میں ۳۰؍شعبان کو زوال تک رویت کی خبر کے انتظار میں کچھ نہ کھانے پینے کومستحب لکھاہے۔ یعنی زوال کے وقت تک معتبر خبر آجائے تو روزہ رکھ لیا جائے اور نہ آئے تو پھر کھاپی لیا جائے۔آج کل ہم لوگوں کو یہ مسئلہ تویاد ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو لیکن رمضان کے چاند کی خبر دریافت کرنے اور صبح کے ناشتے میں تاخیر کرنے کا مسئلہ بالکل بھول گئےہیں۔ جس فتاویٰ عالم گیری میں یہ مسئلہ ہے کہ رویت نہ ہو تو تیس دن پورے کرکے روزہ رکھا جائے اسی فتاویٰ عالم گیری میں یہ مسئلہ بھی ہے کہ اہل مغرب چاند دیکھ لیں تواہل مشرق پر بھی روزہ واجب ہوجائے گا۔ اس لیے اس کی روسے تو آپ لوگوں پربدرجہ اولیٰ رمضان کے بعد ایک دن کے روزے کی قضا واجب ہے۔اس لیے کہ ہندوستان وپاکستان کے متعدد مقامات پر رویت ہلال ثابت ہوچکی ہے۔ اور اگر اختلاف مطالع کو تسلیم کیاجائے اور یقیناً تسلیم کیا جانا چاہیے جب بھی آپ لوگوں پر ایک دن کی قضا واجب ہے۔اس لیے کہ ہندوستان کا کوئی حصہ دوسرے حصے سے اتنی دوری پرنہیں ہے کہ مطلع کا اختلاف واقع ہوتاہے۔اس ملک میں جہاں کہیں بھی رویت ثابت ہوجائے گی پورے ملک میں اس کا اعتبار کیاجائے گا۔ قضا اس لیے واجب ہوگی کہ اب جمعہ کا دن ۳۰؍شعبان کا دن باقی نہیں رہا بلکہ یقینی طورپر یکم رمضان المبارک کا دن ہوگیا۔جن لوگوں نے شریعت کے حکم کے مطابق اس دن روزہ نہیں رکھا تھا اب شریعت ہی کے حکم کے مطابق ان پر ایک دن کے روزے کی قضا واجب ہوگی۔ بھوپال اوراس کے اطراف اسی طرح پٹنہ اوراس کے اطراف میں چاند دیکھاگیا ہے اور رویت ثابت بھی ہوچکی ہے۔ میرے ایک عزیز قریب نے خود چاند دیکھا ہے اور صوبہ بہار کے اس گائوں میں بھی جہاں وہ مقیم ہیں جمعہ سے روزہ رکھا جارہاہے۔آپ خود لکھتے ہیں کہ ’’ہرچہارطرف لوگ جمعہ سے روزہ شروع کرچکے ہیں۔ ‘‘ غرض یہ کہ اب اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ ۲۹کی رویت ثابت ہے اور رمضان جمعہ سے شروع ہوچکا ہے۔ (جنوری ۱۹۶۹ء،ج۴۲،ش۱)