ریڈیو کی خریدوفروخت

مزامیراور نغمہ وسرود کی ممانعت تومسلم ہے اس میں کلام کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن بعض صاحبان کاریڈیوکے بارے میں خیال ہے کہ یہ بھی مزامیر میں داخل ہے۔ اس سے فحش گانے سنے جاتے ہیں اس لیے اس کی تجارت اوراس کی مرمت جائز نہیں ہے اوراس سے حاصل شدہ آمدنی حرام ہے۔میرا خیال ہے کہ ریڈیو ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعے مفید معلومات اورملک ملک کی خبریں حاصل ہوتی ہیں۔ یہ بذات خود ایک اچھی ایجاد ہے۔ اگر اس کو نغمہ وسرود سننے کے لیے استعمال کیاجاتا ہے تو اس میں اس آلے کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اس لیے اس کی تجارت کے حرام ہونے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ آپ بتائیں کہ کیا اس کی بیع یا مرمت سے حاصل شدہ آمدنی حرام ہے؟

جواب

آپ کاخیال صحیح ہے۔ ریڈیو گانے بجانے کا کوئی آلہ نہیں ہے بلکہ ایک مشین ہے جو خاص قاعدے ضابطے کے ساتھ ہوا کی لہروں سے آواز کو جذب کرتی اور اس کو پھیلاتی ہے جیسے لائوڈاسپیکرجو آواز کو بڑھادیتا ہے۔ ریڈیو، ڈھولک یا سارنگی اوربانسری نہیں ہے جس کو ہاتھ منہ سے بجایا جاتاہو۔ اس کو مزا میر میں داخل کرنا صحیح نہیں ہے۔ ریڈیو یا لائوڈاسپیکر کے غلط استعمال سے خود ان مشینوں کو ناجائز قرار دینا غلط ہے۔ لوگ لائوڈاسپیکر کو بھی گانے بجانے کی محفلوں میں بلکہ مشرکانہ تقریبات میں بھی عام طورسے استعمال کررہے ہیں لیکن اس کی تجارت یامرمت سے حاصل شدہ آمدنی کو، کوئی بھی حرام نہیں کہتا۔ مزامیران آلات کو کہتے ہیں جو بذات خود گانے بجانےمیں استعمال کیے جاتے ہیں جیسے ستار، ہارمونیم، پیانواور بانسری وغیرہ۔ جو صاحبان ریڈیو کو مزامیر میں داخل سمجھتے ہیں، ان سے کہیے کہ اس لفظ کے معنی کسی لغت میں دیکھ لیں یا کسی جاننے والے سے دریافت کرلیں۔ ریڈیو کی تجارت یامرمت سے حاصل شدہ آمدنی حرام نہیں ہے۔ (اپریل ۱۹۷۰ء،ج۴۴،ش۴)