زبردستی کی طلاق اور بیوی کا مہر

 ایک شخص اپنی بیوی کی رخصتی کے لیے سسرال گیا۔ بیوی کے اعزاو اقربارخصت کرنے پر تیار نہ ہوئے اور جھگڑا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ وہ شوہر سے طلاق کامطالبہ کرنے لگے۔ اس کے انکار پر وہ لوگ تشدد پر اترآئے اور دھمکی دینے لگے کہ اگراس نے طلاق نہ دی تو اس کا ہاتھ پائوں توڑدیں گے۔ شوہر کو پہلے سے معلوم تھا کہ یہ لوگ بہت وحشی ہیں اور اپنی بہو کو جان سے مارچکے ہیں۔ مجبورہوکر اس نے زبان سے ایک طلاق دی لیکن وہ لوگ تین طلاق پر اصرار کرنے لگے اور یہ سب کچھ اس کی بیوی کی مرضی سے ہورہاتھا۔ شوہر نے خود سنا کہ وہ تین طلاق کامطالبہ کررہی ہے۔ آخرکار پھر مجبور ہوکر اس نے تین طلاق کی تحریر لکھ دی لیکن زبان سے صرف ایک ہی طلاق دی تھی۔ اس صورت میں دوسوال ہیں۔ پہلا یہ کہ اس صورت میں کیا تین طلاقیں واقع ہوگئیں ؟َ دوسرا یہ کہ جب بیوی نے خود اس کو طلاق دینے پر مجبورکیا اور اس طرح کہ اگروہ نہ مانتا تواس کو اپنے کسی عضو کے ضائع ہوجانے کا اندیشہ تھا تو کیا اس صورت میں بھی بیوی مہر کی حق دار ہوگی؟ بعض جگہ سے اس طرح کا جواب آیا ہے کہ وہ ہرحال میں مہر کی مستحق ہوگی۔لیکن یہ بات انصاف کے خلاف معلوم ہوتی ہے۔ اگر واقعی وہ اس صورت میں بھی مہرکی مستحق ہے تو کتب فقہ حنفی کے حوالے سے جواب عنایت کیجیے۔

جواب

 آپ نے جو تفصیل لکھی ہے اس کے لحاظ سے جواب یہ ہے کہ مجبوری کی حالت میں شوہر نے زبان سے جو طلاق دی ہے اس کا اعتبار کیا جائے گا، تحریری طلاق کا اعتبار نہ ہوگا۔ اس لیے اس کی بیوی پرطلاق رجعی واقع ہوئی۔ اگر شوہر نے عدت کے درمیان رجوع نہیں کیا ہے اور عدت گزرچکی تو اب وہ اس کی بیوی نہیں رہی۔ ہاں اگر صلح صفائی ہوجائے تو وہ اس سے دوبارہ نکاح کرسکتاہے۔

دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگریہ بیان صحیح ہے کہ بیوی نے طلاق پرمجبور کیا تھا اور صورت یہ تھی کہ اگر وہ طلاق نہ دیتا تو اس کے ہاتھ پائوں توڑدیے جاتے تو ایسی صورت میں مہر ساقط ہوجائے گا اور بیوی مہر سے محروم کردی جائے گی۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے

ولو کانت ھی المسلطۃ فاکرھتہ علی ان یطلقھا ففعل لم یکن لھا علیہ شیء من المھر، ولو کانت اکرھتہ بالحبس اخذتہ بنصف الصداق، کذا فی المبسوط۔

(فتاویٰ عالمگیری کتاب الاکراہ)

’’اور اگر بیوی ہی مسلط ہوکر اس کو طلاق پرمجبورکرے اور شوہر طلاق دے دے تو وہ شوہر سے کچھ بھی مہرپانے کی مستحق نہیں رہے گی اور اگر اس نے قید کی دھمکی دے کر مجبور کیاتھا تو نصف مہرپانے کی حق دار ہوگی۔‘‘

یہی بات علامہ شامی نے فتاویٰ ظہیر یہ کے حوالہ سے لکھی ہے

فلوکان (ای الحامل علی الاکراہ) الزوجۃ لم یکن لھا شیء علیہ و ھذا اذا اکرھت بالملجیٔ، واما بغیرہ فعلیہ نصف المھر کما فی الظھیریۃ۔

(رد المختار کتاب الاکراہ)

’’پس اگر اکراہ پرآمادہ کرنے والی خود بیوی ہوتو شوہر کے ذمے اس کا مہر ساقط ہوجائے گا۔ یہ اس صورت میں کہ اس نے اکراہ ملجی کرایا ہواور اکراہ ملجی نہ ہو تو شوہر نصف مہرادا کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔‘‘

اکراہ ملجی وغیر ملجی کو مختصراً یوں سمجھیے کہ اگرکسی کو قتل کردینے یا اس کے کسی عضو کوتلف کردینے کی دھمکی دی جائے اور اندیشہ قوی ہوتو ایسے اکراہ کو اکراہ ملجی کہتے ہیں اور اگر صرف قید کرنے یا مارپیٹ کی دھمکی دی جائے تو اکراہ غیر ملجی ہے۔ آپ نے جو صورت بیان کی ہے وہ اکراہ ملجی کے تحت آتی ہے۔ اس لیے عورت کا مہر ساقط ہوجائے گا۔

یہ جواب اس صورت میں ہے کہ شوہر کابیان صحیح ہو۔ اگر صحیح نہ ہو یعنی بیوی نے اس کو طلاق پرمجبور نہ کیا ہو تو وہ مہر کی مستحق ہوگی۔                              (اکتوبر ۱۹۶۶ء ۱ج۳۷ش۴)