زمین داری کا بانڈ کا ’سود‘

سوال:

زمین داری بانڈ پر حکومت جو ’سود‘دے رہی ہے، کیا اس کی حیثیت واقعۃً سود ہی کی ہے اور اس کالینا شرعاًناجائز ہے؟

جواب

یہ ایک معروف اور بدیہی حقیقت ہے کہ لین دین کے دوسرے معاملات کی طرح سودی معاملہ بھی دونوں فریق کی باہمی رضامندی ہی سے وجود میں آیاکرتاہے اور سود اس زائد شے یامال کو کہتے ہیں جو دوچیزوں کے تبادلے میں بلاعوض لیاگیاہو۔ فضل مالٍ بلاعوض فی معاوضۃ مالٍ بمالٍ(کنز الدقائق) اگر زمین داری بانڈ پر ملنے والی وہ زائد رقم جو حکومت’’سود‘‘ کے نام پر زمین داروں کو دے رہی ہے، یہی نوعیت رکھتی ہے توبلاشبہ اسے سود ہی کہاجائے گا اور اس کا لینا شرعاً حرام ہوگا۔ لیکن کیا اس رقم کی نوعیت فی الواقع یہی ہے؟اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے ہمیں تنسیخِ زمین داری کے پورے معاملے کا جائزہ لیناپڑے گا۔ اس معاملے میں چند باتیں بالکل واضح ہیں :

          (۱)یہ معاملہ فریقین(زمین دار اور حکومت )کی باہمی رضامندی سے نہیں ہواہے، بلکہ فریق اول کی قطعی نارضامندی کے باوجود اور صرف دوسرے فریق کی رضامندی سے ہواہے۔

          (۲)زمین کا معاوضہ متعین کرنے میں بھی فریق اول کی رائے اور رضامندی کا کوئی لحاظ نہیں کیاگیاہے، بلکہ شرحِ معاوضہ دوسرے فریق نے از خود طے کردی ہے۔

          (۳)یہ شرحِ معاوضہ زمین کی بازار قیمت سے بہت ہی کم ہے۔

          (۴)زمین کے اس معاوضہ یا قیمت پر فریق ثانی کی طرف سے جو ’سود‘ دیاجانے والاہے اس کی رقم اگر معاوضہ کی رقم میں جوڑ دی جائے تب بھی یہ پوری اور مجموعی رقم زمین کی بازاری قیمت سے کئی گنی ہی رہتی ہے۔

          (۵)اس معاملہ میں ’سود‘ پانے والا(یعنی زمین دار) ’سود‘ دینے والے(یعنی حکومت)کی کسی مجبوری سے فائدہ نہیں اٹھارہاہے، جیسا کہ سودی معاملات میں ہواکرتاہے بلکہ حقیقت واقعہ ایک گونہ الٹی ہی ہے۔

          تنسیخ زمین داری کے سلسلے میں ان حقائق کو سامنے رکھنے کے بعد اس معاملہ کو کوئی لین دین کا معاملہ کہنا ہی سرے سے غلط ہے۔ اسی طرح اس میں سود کا وجود نہ صورتاً کہیں نظر آتاہے نہ حقیقۃً۔البتہ اس کو ایک فریق کی ستم ظریفی نے از خود ’سود‘کا نام ضرور دے دیاہے ۔ حالاں کہ اس کی اصل حقیقت اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ’سود‘ کے نام پر دی جانے والی یہ رقم، زمین کی واقعی قیمت ہی کا ایک جزو ہے، اور جزو بھی ایسا حقیر کہ اس کے بعد بھی زمین کی واقعی قیمت زمین دار کو نہیں مل پاتی۔اس رقم کو سود صرف اس وقت قراردیاجاسکتا تھا جب اس کا اور حکومت کی طرف سے ملنے والے معاوضہ کا مجموعہ زمین کی بازاری قیمت سے بڑھ جاتا، لیکن یہاں توصورت واقعہ یہ ہے کہ یہ مجموعی رقم زمین کی واقعی قیمت کی شاید تہائی چوتھائی حد کو بھی نہیں پہنچتی۔

          اس سلسلے میں ایک اور بحث اٹھائی جاسکتی ہے، اور وہ یہ کہ زمین کا اصل مالک زمین دار تھا ہی نہیں ، بلکہ مالک خود حکومت ہی تھی،اس لیے زمین داری کو اپنے قبضہ میں لے لینے کے ضمن میں فریق اول کی رضامندی کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔اگر یہ بات صحیح ہو جیساکہ اس قانون کے بننے اور نافذ ہونے کے وقت بعض علماء نے بھی خیال ظاہر کیاتھا، توبھی زیر بحث رقم کو سود نہیں قرار دیاجاسکتا، بلکہ اس شکل میں تواس کے سود ہونے کا امکان اور زیادہ ختم ہوجاتاہے۔ جب ایک فریق دوسرے کو اپنی کوئی مملوکہ شے دے ہی نہیں رہاہے تواسے دو چیزوں یا دومالوں کے تبادلے(معاوضۃ مالٍ بمالٍ) کا معاملہ کیسے کہہ سکتے ہیں ؟اور جب اس طرح کا کوئی معاملہ ہی موجود نہیں توسود کا وجود کیسے ممکن ہے؟اس صورت میں توحکومت زمین دار کو جو کچھ آج دے رہی ہے یا دس بیس سال تک دیتی رہے گی، وہ اس کی طرف سے زمین دار کی صرف ایک اعانت اور بخشش ہوگی، اب چاہے وہ اس کا کچھ ہی نام کیوں نہ رکھ دے۔