ایک صاحب نے ایک رسالے میں یہ مضمون لکھا ہے کہ کوئی فردزمین کا مالک نہیں ہوتا، زمین کا مالک اللہ ہے۔ نیز یہ کہ زمین کو بٹائی پریا کرائے پر دینا حرام ہے۔ کسی کے پاس کھیت ہے تو وہ کاشت خود کرے یا کسی کو کاشت کرنے کے لیے مفت دے دے۔ دلیل کے طورپر انھوں نے حضرت جابراور حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما کی حدیثیں پیش کی ہیں۔ جن میں کھیت کو فصل کی بٹائی پردینے کی ممانعت ہے اوراس میں یہ ہے کہ کسی کے پاس زمین ہوتو خود فصل اگائے یا دوسرے کو مفت بغیر کسی معاوضےکے فصل اگانے کے لیے دے دے۔ جن صاحب نے وہ مضمون مجھے دکھایا میں ان میں پیش کی ہوئی حدیثوں کاجواب نہیں دے سکا۔مضمون ہے تو کسی کمیونزم زدہ شخص کا لکھا ہوا۔ لیکن احادیث کی تطبیق دوسری احادیث سے کیا ہے؟ مہربانی کرکے آپ اس کا جواب دیں۔
جواب
یہ کوئی نئی بحث نہیں ہے۔ یہ آپ نے ٹھیک سمجھا کہ مضمون کسی اشتراکیت زدہ شخص نے لکھا ہے۔ جو شخص بھی اپنے گھڑے ہوئے کسی خیال کو قرآن وحدیث سے ثابت کرنے پر تل جاتا ہے وہ پورے قرآن اور تمام احادیث کو اپنے سامنے نہیں رکھتا بلکہ اپنے مطلب کے مطابق جو چیزیں ہوتی ہیں ان کو سیاق وسباق سے کاٹ کر جمع کردیتا ہے۔ مضمون نگار صاحب نے بھی یہی ’خدمت ‘ انجام دی ہے۔ کسی بھی غلط خیال کو اس ’خدمت‘ کے بغیر قرآن وحدیث سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موضوع پراپنی کتاب ’مسئلہ ملکیت زمین ‘ ۱۹۵۰ء میں شائع کی تھی۔ اگرچہ یہ بحث ۱۹۵۰ء سے بھی پرانی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے ان تمام احادیث کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے جن سے اشتراکیت زدہ لوگ یہ ثابت کرنے کی سعی کرتے ہیں کہ زمین کا مالک کوئی فرد نہیں ہے اور نہ یہ جائز ہے کہ زمین کو بٹائی یا کرائے پردیا جائے۔ میں اس کتاب کے بڑے عنوانات یہاں لکھتا ہوں آپ کو اس سے اندازہ ہوگا کہ اس موضوع پراس کتاب میں کتنی سیر حاصل بحث کی گئی ہے زمین کی شخصی ملکیت ازروئے قرآن، زمین کی شخصی ملکیت ازروئے حدیث، مزارعت کا مسئلہ، مزید تائیدی روایات، فقہا کے مذاہب، مذہب حنفی، مذہب حنبلی، مذہب مالکی، مذہب شافعی، اصلاح کے حدود اور طریقے۔
اس طرح اس موضوع پریہ ایک جامع کتاب بن گئی ہے۔ یہ حقیر محنت کرکے اگر اس موضوع پرلکھے تووہ اس کتاب سے بہتر ہرگز نہ ہوگا۔ اس لیے میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ اس کتاب کا بغورمطالعہ کریں۔ اشراکیت زدہ لوگ عام مسلمانوں کے ذہنوں میں جو وسوسے ڈالتے ہیں ان سب کا تسلی بخش جواب اس کتاب میں موجود ہے۔’تحقیق مسئلہ‘ کے ذیلی عنوان سےمولانا مغفورنے جو کچھ لکھا ہے اس کے صرف دواقتباسات یہاں دے رہاہوں
۱- ’’اسلام اس تخیل سے قطعی ناآشنا ہے کہ زرعی جائداد کی ملکیت دوسری تمام اقسام کی املاک اورجائدادوں سے کوئی الگ نوعیت رکھتی ہے جس کی بناپر اس سب کے برعکس اس کی جائز کے لیے رقبے کے لحاظ سے کوئی حد مقرر کردی جائے یا یہ فیصلہ کردیا جائے کہ ہرشخص اور ہر خاندان کے قبضے میں صرف اتنی ہی زمین رہنی چاہیے جس میں وہ خود کاشت کرسکے یا خود کاشتی سے زائد ملکیت کاحق دینے کے بعد دوسری ایسی پابندیاں لگادی جائیں جن کی وجہ سے یہ حق بے معنی ہوکر رہ جائے۔ ایسی حدبندیوں کے لیے فی الحقیقت کتاب وسنت میں کوئی اصل موجود نہیں ہے۔‘‘
۲-’’جو شخص خود کاشت نہ کرے یا نہ کرسکتا ہویا خود کاشتی کی حد سے زائد زمین رکھتا ہواس کو شریعت نے یہ حق دیا ہے کہ اپنی زمین دوسرے لوگوں کو زراعت کے لیے دے اور پیداوار میں تہائی یا چوتھائی یا نصف جس پر فریقین میں معاہدہ ہو، اپنا حصہ مقر ر کرلے۔‘‘ (جنوری ۱۹۸۴ء،ج۷۲،ش۱)