جواب
عاقل وبالغ مسلمان مرد وزن اگرصاحب نصاب ہوں تو ان پر زکاۃ واجب ہے اور اس کی ادائگی کے وہ خود ذمہ دار ہیں ۔
نابالغ بچوں کے بارے میں اختلاف ہے۔ایک مسلک یہ ہے کہ یتیم پر زکاۃ واجب نہیں ہے۔دوسرا مسلک یہ ہے کہ یتیم کے سن رُشد کو پہنچنے پر اُس کا ولی اُس کا مال اُس کے حوالے کرتے وقت اُس کو زکاۃ کی تفصیل بتا دے،پھریہ اُس کا اپنا کام ہے کہ اپنے ایام یتیمی کی پوری زکاۃادا کرے۔ تیسرا مسلک یہ ہے کہ یتیم کا مال اگر کسی کاروبارمیں لگایا گیا ہے اور نفع دے رہا ہے تو اُس کا ولی اُس کی زکاۃ ادا کرے ورنہ نہیں ۔چوتھا مسلک یہ ہے کہ یتیم کے مال کی زکاۃ واجب ہے اور اس کو ادا کرنا اُس کے ولی کے ذمے ہے۔ہمارے نزدیک یہی چوتھا مسلک زیادہ صحیح ہے۔ حدیث مبارکہ میں آیا ہے:
أَلَا مَنْ وَلِيَ يَتِيمًا لَهُ مَالٌ فَلْيَتَّجِرْ فِيهِ وَلَا يَتْرُكْهُ حَتَّى تَأْكُلَهُ الصَّدَقَةُ ({ FR 1904 })
’’خبر دار جو شخص کسی ایسے یتیم کا ولی ہو جو مال رکھتا ہوتو اُسے چاہیے کہ اُس کے مال سے کوئی کاروبار کرے اور اُسے یونہی نہ رکھ چھوڑے کہ اُس کا سارا مال زکاۃ کھا جائے۔‘‘
اسی کے ہم معنی ایک حدیث امام شافعی ؒ نے مرسلاً اور ایک دوسری حدیث طبرانی اور ابوعبید نے مرفوعاً نقل کی ہے اور اُس کی تائید صحابہ وتابعین کے متعدد آثار و اقوال سے ہوتی ہے جو حضرت عمر، حضرت عائشہ، حضرت عبداﷲ بن عمر،حضرت علی، حضرت جابر بن عبداﷲ؇ اور تابعین میں سے مجاہد، عطاء،حسن بن یزید،مالک بن انس اور زُہری سے منقول ہیں ۔({ FR 2209 })
فاتر العقل لوگوں کے معاملے میں بھی اسی نوعیت کا اختلاف ہے جو اوپر مذکور ہوا ہے اوراس میں بھی ہمارے نزدیک قول راجح یہی ہے کہ مجنون کے مال میں زکاۃواجب ہے اور اس کا ادا کرنا مجنون کے ولی کے ذمے ہے۔اما م مالکؒ اور ابن شہاب زُہریؒ نے اس راے کی تصریح کی ہے۔ ({ FR 2210 })
قیدی پر بھی زکاۃواجب ہے۔ جو کوئی اُس کے پیچھے اُس کے کاروبار یا مال کا متولی ہو، وہ اُس کی طرف سے جہاں اُس کے دوسرے واجبات ادا کرے گا،زکاۃ بھی ادا کرے گا۔ ابن قدامہ اس کے متعلق اپنی کتاب’’المغنی‘‘ میں لکھتے ہیں :’’اگر مال کا مالک قید ہوجائے تو زکاۃاُس پر سے ساقط نہ ہو گی،خواہ قید اُس کے اور اُس کے مال کے درمیان حائل ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔کیوں کہ اپنے مال میں اس کا تصرف قانوناًنافذ ہوتا ہے۔اُس کی بیع،اُس کا ہبہ اور اُس کا مختار نامہ، سب کچھ قانوناً جائزہے۔‘‘({ FR 2033 })
مسافر پر بھی زکاۃواجب ہے۔اس میں شک نہیں کہ وہ مسافر ہونے کی حیثیت سے زکاۃ کا مستحق ہے۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اگر وہ صاحب نصاب ہے تو زکاۃ کا فرض اُس پر سے ساقط ہوجائے گا۔اُس کا سفر اُسے زکاۃ کا مستحق بناتا ہے اور اُس کا مال دار ہونا اُس پر زکاۃ فرض کرتا ہے۔
پاکستان کا مسلمان باشندہ اگر کسی غیر ملک میں مقیم ہو تو اُس پر زکاۃ اس صورت میں عائد ہوگی جب کہ اُس کا مال یا جائداد یا کاروبار پاکستان میں بقدر نصاب موجود ہو۔ کسی مسلمان مملکت کا مسلمان باشندہ اگر پاکستان میں مقیم ہو اور یہاں اُس کے پاس مال یاجائداد یا کاروبار بقدر نصاب ہو تو اُس سے بھی زکاۃ وصول کی جائے گی۔رہا وہ مسلمان جو غیر مسلم حکومت کی رعایا ہواور پاکستان میں رہتا ہو، تو اُسے اداے زکاۃ پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، اِلاّیہ کہ وہ بخوشی دینا چاہے۔اس لیے کہ اُس کی آئینی حیثیت اُس حکومت کی غیر مسلم رعایا سے مختلف نہیں ہے۔
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يُہَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَايَتِہِمْ مِّنْ شَيْءٍ ( الانفال:۷۲)
’’رہے وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کرکے (دارالاسلام میں ) آ نہیں گئے تو ان سے تمھاراولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔‘‘
( ترجمان القرآن،نومبر ۱۹۵۰ء )