جواب
حدیث میں اصول بیان کیا گیا ہے کہ: اِنَّ فِی الْمَالِ حَقًّا سِوَی الزَّکاۃِ ({ FR 2050 }) ’’آدمی کے مال میں زکاۃ کے سوا اور بھی حق ہے) اس اصولی ارشاد کی موجودگی میں یہ سوال ہی پیدانہیں ہوتا کہ کیا ایک اسلامی حکومت زکاۃ کے سوا دوسرے محاصل عائد کرسکتی ہے۔پھر جب کہ قرآن میں زکاۃ کے لیے چند مخصوص مصارف معین کردیے گئے ہیں تو لامحالہ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان مصارف کے ماسوا جو دوسرے فرائض حکومت کے ذمے عائد ہوں ،ان کو بجا لانے کے لیے وہ دوسرے محاصل پبلک پر عائد کرے۔نیز قرآن میں یہ اُصولی ہدایت بھی دی گئی ہے کہ وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ۰ۥۭ قُلِ الْعَفْوَ (البقرہ:۲۱۹) ’’تم سے پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں ،کہو عفو۔‘‘ عفو کا لفظ economic surplus کا ہم معنی ہے اور اس میں نشان دہی کی گئی ہے کہ ’’عفو‘‘ٹیکس کا صحیح محل ہے۔مزید برآں ایسے نظائر بھی موجود ہیں کہ خلفاے راشدین کے عہد میں دوسرے محاصل عائد کیے گئے ہیں ۔مثلاًحضرت عمرؓ کے عہد میں محصول درآمد مقرر کیا گیا اور اس کا شمار ’’زکاۃ‘‘ میں نہیں بلکہ’’فَے‘‘ (حکومت کی عام آمدنیوں ) میں تھا۔علاوہ بریں شریعت میں کوئی ایسی ہدایت موجود نہیں ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکے کہ حکومت اجتماعی ضروریات کے لیے کوئی دوسرا ٹیکس نہیں لگا سکتی، اور اُصول یہ ہے کہ جس چیز سے منع نہ کیا گیا ہو،وہ مباح ہے۔ فقہاے اسلام سے بھی، جہاں تک ہم کو معلوم ہے، ایک غیر معروف شخصیت ضحاک بن مزاحم کے سوا کوئی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ نَسَخَتِ الزَّکٰاۃُ کُلَّ حَقٍّ فِی الْمَالِ’’ زکاۃ نے مال میں ہر دوسرے حق کو منسوخ کردیا ہے۔‘‘ضحا ک کی اس راے کو کسی قابل ذکر فقیہ نے تسلیم نہیں کیا ہے۔({ FR 2051 }) ( ترجمان القرآن،نومبر ۱۹۵۰ء )