اگرچہ زکوٰۃ اورعشراصطلاح میں دوالگ الگ فرائض ہیں لیکن معنوی حیثیت سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ دونوں ایک ہی ہیں۔ مگر دونوں کے احکام میں جو زبردست فرق پایا جاتاہے وہ ناقابل فہم ہے۔ ہم ذیل میں دونوں کے درمیان فرق بیان کرتے ہیں
(۱) زکوٰۃ کے وجوب کے لیے مقررہ نصاب کاہونا لازمی ہے۔ نصاب کی کمی کی صورت میں عائد نہیں ہوگی۔
عشر پرکوئی نصاب نہیں بلکہ ہرچیز جوزمین سے پیدا ہو، خواہ کم ہو یا زیادہ اس پر بہرحال عشرعائد ہوگا۔
(۲) زکوٰۃ کے وجوب کے لیے حولان حول کی شرط ہے۔ بغیر حولان حول زکوٰۃ عائد نہیں ہوگی۔
عشرمیں حولان حول کی کوئی شرط نہیں۔ فصل کٹنے کے فوراً ہی بعد عشرعائد ہوجاتاہے۔
(۳) زکوٰۃ کے وجوب کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ مال حاجت اصلیہ سے زائدہے۔
عشر میں حاجت اصلیہ سے زائد ہونے کی کوئی شرط نہیں ہے۔
(۴) ہیرے جواہرات پرزکوٰۃ عائد نہیں ہوتی خواہ اس کی قیمت کروڑوں سے بھی متجاوز ہو۔
ترکاریاں اورسبزیاں تک بھی عشر سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔
مندرجہ بالا موازنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اہل زر کو توفقہاء نے زبردست رعایتیں دی ہیں جب کہ کسانوں کو ان رعایتوں سے محروم کردیا ہے۔مثلاً
زید کے پاس دس ہزار روپے ہیں لیکن وہ بارہ ہزار کامقروض بھی ہے توزکوٰۃ عائد نہیں ہوگی۔ یا کھانے پہننے یا دوسری جائز ضروریات میں رقم خرچ ہوگئی تب بھی زکوٰۃ عائد نہیں ہوگی۔پھر اسے حولان حول کی رعایت بھی دی گئی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے مال سے فائدہ اٹھاتاہے اور اس میں اضافہ کی کوشش کرتاہے۔
اب عشرکے مسئلے پرغورکیجیے۔ مثلاً عمرو کےکھیت سے سومن غلہ پیدا ہوتاہےلیکن وہ اس کے گھر کے تمام اخراجات کے لیے بھی کافی نہیں ہے بلکہ بسا اوقات اسے ہزار، پانچ سو قرض لینے کی بھی نوبت آجاتی ہے، لیکن مقروض بھی ہوتو عشرعائد ہوجاتاہے۔نیز چوں کہ عشرفصل کٹنے کے بعد ہی عائد ہوتا ہے اس لیے مالک سے استفادے کا اس کو کوئی موقع نہیں ہے۔ اہل زر کی رقم اگر درمیان سال چوری ہوجائے یا کسی وجہ سے ضائع ہوجائے تووہ ضائع شدہ رقم زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہوجاتی ہے۔ لیکن کسان کے ساتھ معاملہ مختلف ہے اس کا غلہ محفوظ رہے یا ضائع ہوجائے وہ تو عشر ادا ہی کرچکا۔ ترکاریوں اورسبزیوں پر جو عشرلیاجاتا ہے یہ ایک بڑی مصیبت ہے۔ مثلاً زید کے کھیت میں پالک یا مرچیں یامولیاں ہیں وہ گھر کی ضرورت کے لیے پائوبھر ساگ یا چند مرچیں یادو مولیاں لے آیا۔ اب چوں کہ ان کا بھی عشردینا ہے اس لیے ساگ کووزن کرے اور اس کا عشرنکالے یا مرچوں اورمولیوں کا عشرنکالے۔یہ کتنی بڑی مصیبت ہے اور بغیر عشر ادا کیے اس کو کھانا حرام ہے۔اب دوہی صورتیں ہیں یا توکسان یہ مصیبت برداشت کرے،یا سبزیوں اورترکاریوں کی کاشت ہی بندکردے۔
الحاصل، عقل وانصاف کاتقاضا یہ ہے کہ زکوٰۃ کی طرح عشرکا بھی ایک مقررہ نصاب ہونا چاہیے۔ اور حولان حول کی شرط بھی ہونی چاہیے۔ نیز حاجت اصلیہ سے زائد ہونے کی بھی۔ تاہم اگر حولان حول کی شرط ممکن نہ ہوجب بھی، دین اور قرض منہا کرکے عشرلیا جانا چاہیے۔
ممنون ہوں گا اگر آپ مندرجہ بالا امورپرکتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی روشنی میں مفصل اورمدلل اظہار خیال کی زحمت فرمائیں۔
جواب
میں اپنے علم کی حدتک جواب توبعد کو دوں گا پہلے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سائل نے جس ذہن سے سوالات مرتب کیے ہیں سب سے پہلے وہی قابلِ اصلاح ہے۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ ان کے پاس تھوڑی سی زرعی زمین ہے اور وہ پیداوار کا عشر نکالنے کے حکم سے گھبرائے ہوئے ہیں۔ اس گھبراہٹ میں انھوں نے کسان اور اہل زر کامقابلہ کرڈالا ہے۔ انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ اہل زر کوئی کسان بھی ہوسکتا ہے۔ کسان کا تقابل اہل صنعت وحرفت یا کسی درجے میں اہل تجارت سے ہوسکتا ہے۔ اہل زر تومال دار کوکہتے ہیں خواہ وہ کاریگرہو، تاجرہو،ملازم ہو، مزدور ہویا کسان۔ کیا کسانوں کے پاس سونا چاندی، جواہرات اور روپے پیسے نہیں ہوتے یا نہیں ہوسکتے؟سائل نے اپنے آپ کو ’طالب علم دین‘ لکھا ہے، لیکن فقہاء کے بارے میں جو اظہار خیال انھوں نے کیا ہے وہ کسی طالب علم دین کو زیب نہیں دیتا۔ فقہاء کو کسانوں سے دشمنی کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ کسی فقیہ کے کسی قول کے بارے میں یہ کہنا یا سمجھنا کہ ان کی دلیل قوی نہیں ہے اور بات ہے، لیکن یہ کہنا کہ انھوں نے کسی کے ساتھ بے جارعایت کرکے کوئی بات کہی ہے ایک غلط الزام ہے۔
جب تک کوئی مسلمان دوباتوں پرپختہ یقین نہ رکھے اس کے لیے شریعت کے احکام پرخوش دلی کے ساتھ عمل کرنا ممکن نہیں ہے۔ایک یہ کہ اللہ اور اس کےرسولؐ نے جو احکام دیے ہیں وہ سب بے لوث، مفید اور حکیمانہ ہیں۔ خواہ ان کی حکمت ومصلحت ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ اور دوسری یہ کہ جب معلوم ہوجائے کہ اس معاملے میں اللہ ورسولؐ کا یہ حکم ہے توبے چون وچرا اس پرعمل کیاجائے۔
عقل بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی بہت بڑی نعمت ہے لیکن یہ غیرمحدود نہیں ہے اور نہ یکساں ہے۔ عقل ایک حدتک جاکر رک جاتی ہے۔ اس کے آگے اگر کتاب وسنت کی رہ نمائی حاصل نہ ہو توانسان کبھی ہدایت یافتہ نہیں ہوسکتا۔ عقل یکساں بھی نہیں ہے، کسی میں کم ہوتی ہے اور کسی میں زیادہ۔ اس کے علاوہ بسا اوقات یہ خواہشِ نفس کے نیچے دب بھی جاتی ہے۔ ایک ہی چیز کو کسی کی عقل صحیح سمجھتی ہے اور کسی کی غلط۔ کسی کی عقل اس کو انصاف قرار دیتی ہے اور کسی کی عقل اسی کو ناانصافی سمجھتی ہے۔ اس لیے مومن کو اپنی باگ اپنی عقل کے ہاتھ میں نہیں بلکہ شریعت کے ہاتھ میں دے دینی چاہیے۔ یہی سلامتی اور سعادت کی راہ ہے۔ اب میں سوالات کے جوابات عرض کرتاہوں۔
زکوٰۃ وعشر کے بارے میں پہلے دوباتیں سمجھ لیجیے۔ ایک یہ کہ زکوٰۃ واجب کب ہوتی ہے اور اس کا ادا کرنا کب واجب ہوتاہے؟ اسی طرح عشرکب واجب ہوتاہے اوراس کا ادا کرنا کب واجب ہوتاہے؟ ایک چیز ہے ان دونوں کا واجب ہونا اور دوسری چیز ہے ان کی ادائیگی کے لیےکسی شرط کا ہونا۔مثال کے طورپر چاندی یا سونا کے ایک نصاب کامالک ہوتے ہی زکوٰۃ واجب ہوجاتی ہے لیکن اس کی ادائیگی کے لیے شریعت نے حولان حول کی شرط لگادی ہے۔ اسی طرح عشراس وقت واجب ہوجاتا ہے جب غلہ کھیت میں اگ آئے لیکن اس کی ادائیگی اس وقت واجب ہوتی ہے جب وہ پک جائے اورکاٹ لیاجائے۔ دوسری بات یہ کہ ان دونوں کے بعض احکام تووہ ہیں جو قرآن اوراحادیث سے ثابت ہیں اور ائمہ دین کا ان پر اتفاق ہے۔ اور بعض احکام وہ ہیں جو ائمہ نے اپنے اجتہاد واستنباط سے مرتب کیے ہیں اوران میں ان کے درمیان اختلافات ہیں۔ اب یہ بات دیکھیے کہ آپ نے زکوٰۃ وعشر کے احکام میں جو فرق گنائے ہیں ان میں کن پرائمہ کا اتفاق ہے اور کن پر اتفا ق نہیں ہے؟
۱-عشر کے لیے کسی نصاب کا نہ ہونا ائمہ اربعہ میں صرف امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔یہاں تک کہ ان کے صاحبین (امام ابویوسف اورامام محمد) بھی زکوٰۃ کی طرح عشرمیں بھی نصاب کے قائل ہیں اس لیے کہ اس کے لیے بھی نصاب کی تعیین حدیث میں موجود ہے۔
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ الخُدْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْسَ فِیْمَادُوْنَ خَمْسَۃَ اَوْسقٍ مِنَ التَّمْرِصَدَقَۃ. (مشکوٰۃ بحوالہ بخاری)
’’ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ وسق سے کم چھوارے میں زکوٰۃ نہیں ہے۔‘‘
ان ہی صحابی سے ایک حدیث ان الفاظ کے ساتھ روایت کی گئی ہے۔
اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وِسَلّم قَالَ لَیْسَ فِی حَبّ وَلَا تمرٍصَدَقَۃ حَتّی یَبْلُغَ خَمْسَۃ اَوْسَقٍ۔ (ایضاً بحوالہ نسائی)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غلے میں اور چھوارے میں زکوٰۃ نہیں ہے یہاں تک کہ پانچ وسق تک پہنچ جائے۔‘‘
ایک وسق، ساٹھ صاع کا ہوتاہے۔ لہٰذا تین سوصاع سے کم وزن میں عشر یا نصف عشر عائد نہیں ہوگا۔صاع کےوزن میں اختلاف ہے اس لیے ہم یہاں اس کے وزن کی تفصیل پیش کرکے جواب کو طویل نہیں کرنا چاہتے۔({ FR 1235 })
۲- زکوٰۃ اموال کےلیے حولان حول کی شرط حدیث سے ثابت ہے۔ یہ کسی فقیہ کا اجتہاد نہیں ہے۔وہ حدیث یہ ہے
عَنِ ابْنِ عُمَرَمَنِ اسْتَفَادَ مَالًا فَلَازَکوٰۃَ عَلَیْہِ حَتّی یَحُوْلُ عَلَیْہِ الْحَوْلُ۔
(ترمذی)
’’حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ جس نے کوئی مال حاصل کیا تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے۔یہاں تک کہ اس پر ایک سال گزرجائے۔‘‘
عن علی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال فاذا کانت لک مائتاد رھم وحال علیہ الحول ففیھا خمسۃ دراھم۔ (ابودائود)
’’حضرت علی ؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ جب تم دوسو درہم کے مالک ہوجائو اور اس پر ایک سال گزرجائے تواس میں پانچ درہم زکوٰۃ ہوگی۔
عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہ وَسَلَّمَ لَیْسَ فِی مَالٍ زَکوٰۃٌ حَتّی یَحُوْلُ عَلَیْہِ الْحَوْلُ۔ (ابودائود)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہےکہ مال میں زکوٰۃ نہیں ہے یہاں تک کہ اس پرایک سا ل گزرجائے۔‘‘
ان مذکورہ بالا حدیثوں کی بناپر ائمہ اربعہ زکوٰۃ اموال میں حولان حول کی شرط پرمتفق ہیں۔ اب رہی یہ بات کہ عشرکے لیے حولان حول کی شرط کیوں نہیں ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہےکہ اس کے بارے میں کوئی حدیث موجود نہیں ہے۔اورقرآن کریم سےمعلوم ہوتاہے کہ جس دن غلہ کھیت سے کاٹا جائے فوراً اس کا حق (یعنی عشر) ادا کر دیاجائے۔ہم قرآن کی اس آیت کاترجمہ نقل کرتے ہیں۔
’’اور اسی نے پیدا کیے باغ جو ٹٹیوں پرچڑھائے جاتے ہیں اورجو ٹٹیوں پرنہیں چڑھائے جاتے اور کھجورکے درخت اورکھیتی کہ مختلف ہیں ان کے پھل اور پیداکیا زیتون کو اور انارکو، ایک دوسرے کے مشابہ اور جداجدا بھی، کھائو ان کے پھل جس وقت پھل لاویں اور ادا کروان کا حق جس دن ان کو کاٹو۔‘‘ (الانعام۱۴۱)
اسی بناپر ائمہ اربعہ متفق ہیں کہ عشر کے لیے حولان حول کی شرط نہیں ہے بلکہ تمام ائمہ فقہ کا اس پراتفاق ہے۔ تفسیر مظہری میں لکھا گیا ہے کہ اس مسئلے پراجماع ہے۔ (ج۱ ص ۳۵۳)
۳- وجوب زکوٰۃ کے لیے مال کاحاجت اصلیہ سے زائد ہونا کوئی شرط نہیں ہے۔ البتہ ادائے زکوٰۃ کے لیے فقہ حنفی میں اس کو شرط بنایاگیاہے۔ چوں کہ یہ شرط منصوص نہیں ہے اس لیے اس میں اختلاف ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ادائے زکوٰۃ کے لیے مال کادین سے فارغ ہونا شرط نہیں ہے۔ اگر کوئی صاحب نصاب مدیون ومقروض ہو اور اس کے مال پر ایک سال گزرجائے تواسے زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی دین کو وضع نہیں کیا جائے گا۔
۴-(الف) ہیرے، جواہرات پرزکوٰۃ اس لیے نہیں ہے کہ شریعت نے اموال زکوٰۃ کی تعیین کردی ہے۔ اس نے ہرمال پرزکوٰۃ عائد نہیں ہے الا یہ کہ وہ تجارت کے لیےہو۔ اگر ہیرے اور جواہرات کی تجارت کی جارہی ہوتواس پر زکوٰۃ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسئلے پربھی ائمہ فقہ کااتفاق ہے۔
(ب) ترکاریوں اورسبزیوں پرائمہ اربعہ میں سے صرف امام ابوحنیفہؒ کے مسلک میں عشر ہے۔ ائمہ ثلاثہ اور صاحبین (امام ابویوسف ؒوامام محمدؒ) اس کو عشرسے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔ کیوں کہ احادیث میں صراحت ہے کہ سبزیوں اور ترکاریوں پرعشر نہیں ہے
عَنْ مُعَاذٍ اَنّہٗ کَتَبَ اِلَی النَّبِیِّ صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلّم یَسْأَلَہٗ عَنِ الْخَضَرَاوَاتِ وَھِیَ الْبَقُول فَقَالَ لَیْسَ فِیْھَاشَیءٌ (ترمذی)
’’حضر ت معاذؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے لکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خضراوات یعنی ترکاریوں کی زکوٰۃ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا اس میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔‘‘
عن علی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لیس فی الخضراوات صدقۃ (مشکوٰۃ بحوالہ دار قطنی)
’’حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبزیوں اور ترکاریوں پرزکوٰۃ نہیں ہے۔‘‘
(ج) غلوں اور پھلوں کی زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے ان کا دین سے فارغ ہونا ائمہ ثلاثہ (ابوحنیفہ، مالک،شافعی) کے نزدیک شرط نہیں ہے۔ لیکن امام احمد بن حنبل کامسلک یہ ہے کہ جس طرح سونے،چاندی،روپے پیسے کی زکوٰۃ ادا کرنے میں مال کادین سے فارغ ہونا شرط ہے اسی طرح غلوں اورپھلوں کا عشرادا کرنے میں بھی اس کا دین سے فارغ ہونا شرط ہے۔ اگر دین اتنا ہوکہ پوری پیداواراس کو ادا کرنے میں صرف ہوجائے یا اتنا ہوکہ اس کو اداکرنے کے بعد پیداوار نصاب کے برابر بچ جاتی ہے تواس بچی ہوئی مقدار کا عشر دینا ہوگا۔ امام احمد کے مسلک کی یہ تفصیل میں نے الفقۃ علی المذاھب الاربعۃ کے حوالہ سے لکھی ہے۔ امام ابوحنیفہؒ سے بھی ایک روایت یہی ہے۔
رَوَی ابْنُ المُبَارَکُ عَنْ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ اَنّ الدَیْنَ یَمْنَعُ وُجُوْبُ العُشْرِ فَیَمْنَعُ عَلٰی ھٰذِہٖ الروایۃ۔ (بدائع الصنائع، جلد۲،صفحہ۶)
’’ابن المبارک نے ابوحنیفہؒ سے یہ روایت کی ہے کہ دین وجوب عشر کو روک دیتا ہے لہٰذا اس روایت کی بناپر دین مانع عشرہوگا۔‘‘
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ عشر کے جن احکام میں آپ نے اپنے عام اطمینان کااظہار کیا ہے ان میں سے صرف ایک حکم ایسا ہے جس پرتمام ائمہ مذاہب کا اتفاق ہے اور وہ یہ کہ ادائے عشر کے لیے حولان حول کی شرط نہیں ہے۔ اس کی وجہ اوپر عرض کی جاچکی ہے۔ اس کے باوجود یہ بات بھی اپنےسامنے رکھیے کہ عشر اداکرنا اس وقت واجب ہوتاہے جب غلہ کھیت سے کاٹ لیاجائے۔امام محمد فرماتے ہیں کہ جب غلہ کٹ کر کھلیان میں آجائے اور اسے صاف کرلیاجائے تب عشرنکالنا واجب ہوتاہے۔ظاہر ہے کہ غلہ اگنے سے لے کر اس کے صاف کیے جانے تک کئی مہینے صرف ہوتے ہیں۔ اس درمیان میں اگر پوری پیداوارکھیت ہی سے چوری ہوجائے یا کسی آفت سماوی کا شکار ہوجائے تو کوئی عشر عائد نہیں ہوگا اور کچھ حصہ بچ جائے اور کچھ ضائع ہوجائے تو عشر اسی حصے کاادا کرنا ہوگا جو بچ گیا ہے۔
ترکاریوں اور سبزیوں کے عشر کے سلسلے میں آپ نے جس مصیبت کا ذکر کیاہے وہ صحیح نہیں ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق بھی مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص کھیت سے مثال کے طورپر پانچ مولیاں لے آئے تو ان پانچ مولیوں کا عشر نکال کر انھیں کھائے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ پوری پیداوار میں ان پانچ مولیوں کا حساب بھی شامل کرلے اور یہ کوئی مصیبت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس کی گنجائش بھی موجود ہےکہ اگر کوئی کھانے کے لیے دوچاردس مولیاں لے آیا ہوتو انھیں عشر سے مستثنیٰ قرار دیاجائے۔
اخیر میں آپ کی ایک اور غلط فہمی کی طرف اشارہ کرنا مناسب ہے۔ آپ اس فصل کو جو کھیت سے حاصل ہوئی ہے اصل مال سمجھ رہے ہیں۔ حالاں کہ وہ اس مال کا حاصل ہے جو کسان نے کھیت میں لگایا تھا۔مثال کے طورپر کسان نے بیج کے طورپر ایک من گیہوں کھیت میں ڈالا اوردس من غلہ پیداہواتو یہ اصل مال نہیں بلکہ ایک من اصل مال کا حاصل اورمنافع ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے اس زمین کو کوئی حیثیت نہیں دی کسان جس کا مالک ہے۔ اس پر زکوٰۃ کیوں عائد نہیں کی گئی تو آپ کیا جواب دیں گے؟ اور اگر اہلِ زریہ کہیں کہ ہم اپنی رقم سے جوتجارت کرتے ہیں اور اس کو بڑھانے کے لیے جو محنت کرتے ہیں اس میں جائز طورپر ایک سوروپے کے ایک ہزار روپے کبھی نہیں بنتے اور کسان ایک من غلہ خرچ کرکے دس من غلہ یعنی دس گونہ منافع حاصل کرتا ہے تو آپ کیا جواب دیں گے؟ سیدھی بات یہی ہے کہ اللہ ورسول کے احکام پراعتماد کیجیے اوران کے دیے ہوئے احکام پر محض اپنی عقل اوراپنی خواہش کے تیرتکےنہ چلائیے۔ (مارچ واپریل ۱۹۷۷ء،ج۵۸،ش۳۔۴)