مندرجہ ذیل سطورکاسبب آپ کے اشارات ماہ ستمبر۱۹۶۹ء ہیں ۔ مجھے حیرت ہے کہ آپ سے دین دار اورصاحب فہم افراد بھی رشک وحسد کا شکار نہ صرف ہوسکتے ہیں بلکہ اس کے اظہار سے بھی نہیں چوکتے۔ میری ناچیز سمجھ میں یہ بات نہ آسکی کہ چاند پرانسان کے قدم رکھنے سے مذہب (اسلام ) کا کون سا پہلو متاثر ہوسکتا ہے؟ اور بڑے ہی تعجب کی بات تویہ ہے کہ آپ نے چاند پرانسانی قدم کو معراج رسول اللہ ﷺ سے تقابل فرماکریہ تاثر دینے کی کوشش فرمائی ہے کہ یہ تاریخ انسانی کا حیرت انگیز واقعہ نہیں ہے۔ اس تاثر کے پس منظر میں وہ جذبہ نمایاں ہے جو ہر انسان کے ذہن میں جو عدم اہلیت کاشکار ہوتاہے، پیداہوتاہے۔ اگر کوئی اپنی تحقیق اور تجربہ کے بعد کہتا ہے کہ دنیا گول ہے تو ہم بغلیں بجاکر کہنے لگیں کہ یہ بات تو ہمارے قرآن میں بھی ہے۔ اگر کوئی اپنی جستجو اورتلاش کے بعد جوہری توانائی کو دریافت کرتا ہے تو ہم اس کا منہ چڑا کر کہتے ہیں کہ یہ بات توسیکڑوں سال پہلے اللہ تعالیٰ قرآن کے ذریعے ہم تک پہنچاچکا ہے کہ کائنات کے ذرہ ذرہ میں ایسی ایسی قوتیں پوشیدہ ہیں کہ جن کا وہم وگمان بھی نہیں کیاجاسکتا اورآج جب اپنی مسلسل اورانتھک محنتوں کے نتیجے میں انسان کا ایک ’چھوٹا سا قدم‘ چاند پرپہنچ چکا ہےتو ہم اپنی پوری توانائیاں صرف کرکے یہ ڈھنڈورا پیٹنا چاہتے ہیں کہ ہمارے رسولؐ تو چاند کیا چاند سے گزر کر بہت آگے جاچکے ہیں ۔ اس قسم کے احساسات اور خیالات پرتھوڑی دیر کے لیے آپ غور فرمائیں تو آپ بھی سرپیٹ لیں گے کہ آخر اللہ تعالیٰ کے اپنے بندے کو مکہ سے سات آسمان سے پرے چند لمحوں میں لے جانے اور انسان کی اس ’زبردست چھلانگ ‘ میں کیا تعلق ہے؟ اگر آپ کچھ دیر کے لیے ان تمام مساعی اوردماغی صلاحیتوں پرغورفرمائیں جو انسان، انسان کو چاند پر پہنچانے کے لیے بروئے کار لے آیا ہے تو مجھے یقین ہے آپ بھی انسانی صلاحیتوں اوران صلاحیتوں کے خالق پروردگار عالم کی صنعت تخلیق پرعش عش کیے بنانہ رہ سکیں گے۔مجھے یقین ہے کہ میرے اس نفسیاتی تجزیہ سے آپ ضرور ہی برافروختہ ہوں گے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس میں طنز اور استہزا کا عنصر دوردور تک بھی نہیں ہے۔آپ نے لکھا ہے کہ انسان کا چاند پرقدم رکھ دینا عقل کو حیرت زدہ کردینے والا کوئی واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں انسان اب تک جو کچھ کرچکا ہے اس پر کھودا پہاڑ نکلی چوہیا کی مثل صادق آتی ہے ۔ آپ کی یہ عبارت کن جذبات کی نمائندگی کرتی ہے؟ اس نوع کی تحریر اس کے ناظر کے ذہن پروہی کام کرتی ہے جو ایک ناکارہ اور زندگی کی حقیقتوں سے مفرور شخص کے دل ودماغ پرافیون کرتی ہے؟ اس کو نہ صرف یہ کہ جہد حیات سے غافل کرتی ہے بلکہ وہ اپنے اسی حال میں مگن رہنا اپنی زندگی کامقصد قراردے لیتاہے اور اپنی موجودہ جہالت، نکبت، مہجوری اور پھٹے حالوں میں بدمست ہوجاتے ہیں ۔’’اللہ کے رسولوں اور اس کے صالح بندوں کے واقعات ‘‘ میں اور خلابازوں کو چاند پر اتارنے میں کون سی قدر مشترک ہے۔
آپ نے سائنسی تحقیقات کی اصلیت کو بڑی خوبی سے بیان فرمایا ہے ۔ لیکن آگے ص۵ پر سورۂ نجم کی آیت ۲۹،۳۰ نقل فرماکر آپ نے جن خیالات کا اظہار فرمایا ہے وہ بے جوڑ ہے۔ اس پورے پیراگراف میں ان تحقیقات کو دنیوی امور کے خانے میں اور ان کے مقابل آخرت کو ایک علیحدہ خانے میں رکھ کر گویا آپ نے بھی دین اور دنیا والی جاہلانہ تقسیم پر مہر تصدیق ثبت فرمادی۔
’’صالح بندوں کے واقعات‘‘ کا جوذکر آپ نے کیا ہے اس سے یہ تو نہیں سمجھاجاسکتا کہ آپ کشف وکرامات مراد لیتے ہوں، کیوں کہ کہاں وہ روایتی کشف وکرامات (جن کاظہور شاید ہرزمانے میں مفقود رہاہے) اور کہاں یہ انسانی صلاحیتوں کا ظاہرہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر اتارے جانے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پراٹھالیے جانے اور آں حضرت ﷺ کے واقعہ معراج کا اللہ کی قوت بے پایاں کی عظیم نشانی ہونا تو سمجھ میں آسکتا ہے لیکن ان واقعات کو انسانی صلاحیت کا محیرا لعقول مظاہرہ کہنا سمجھ میں نہ آسکا۔ ان واقعات کا کون ساجزانسانی قوت وصلاحیت کو ظاہر کرتا ہے، آپ نے واضح نہیں فرمایا۔
جواب
آپ نے لکھا ہے کہ ’’مجھے یقین ہے کہ میرے اس نفسیاتی تجزیے سے آپ ضرور ہی برافروختہ ہوں گے۔‘‘میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کی تنقید پڑھ کر مجھے غصہ نہیں آیا بلکہ چاند پرانسان کے پہنچ جانے کا مسلمانوں کے ذہن پرجو ردعمل ہواہے اس کا دوسرا رخ سامنے آیا۔ آپ میرا جملہ ’’کھودا پہاڑ نکلی چوہیا‘‘ پڑھ کر اتنے برافروختہ ہوئے کہ آپ کا ذہن میرے مقصد تحریر کے بالکل برعکس کام کرنے لگا اور یہ بات آپ کے ذہن سے نکل گئی کہ میرے اشارات کے مخاطب کون لوگ ہیں ؟ آپ نے سمجھ لیا کہ میں سائنسی تحقیقات اوراس بڑے کارنامے کی تحقیر کررہاہوں، انسان کی مساعی اوراس کی دماغی صلاحیتوں کی قدروقیمت گھٹا رہاہوں اور یہ سب اس لیے ہے کہ میں رشک وحسد کا شکار ہوگیا ہوں اور اس کارنامے کو مذہب اسلام کے خلاف سمجھ رہاہوں ۔ آپ نے اپنے خط کی ابتداہی میں لکھا ہے
’’میری ناچیز سمجھ میں یہ بات نہ آسکی کہ چاند پر انسان کے قدم رکھنے سےمذہب (اسلام ) کا کون سا پہلو متاثر ہوسکتا ہے؟‘‘
گویا جس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے میں نے یہ اشارات لکھے ہیں وہی غلط فہمی آپ میری طرف منسوب کررہے ہیں ۔ آپ میرے اشارات کا آخری پیراگراف دوبارہ پڑھیں ۔ میں نے اس میں لکھا ہے’’بلاشبہ یہ سائنس دانوں کے کمال فن کا مظاہرہ ہے لیکن اس سے دین اسلام کی کسی تعلیم پر کوئی زد نہیں پڑتی۔‘‘( ص۶۴)میں نے اس میں یہ بھی لکھا ہے’’ہم یقین رکھتے ہیں کہ سائنس کتنی ہی ترقی کرجائے وہ قرآن کی بیان کی ہوئی کسی حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتی۔‘‘ ان جملوں کو پڑھنے کے بعد کیا کوئی شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ میں نے وہ اشارات رشک وحسد کا شکار ہوکر لکھے تھے یا میں یہ سمجھ رہاہوں کہ چاند پر انسان کے قدم رکھ دینے سے مذہب اسلام کا کوئی پہلو متاثر ہوگیا ہے؟میرا خیال ہے کہ آپ نے ’’کھودا پہاڑ نکلی چوہیا‘‘ کامطلب بھی صحیح نہیں سمجھا اور اسی لیے آپ کو غصہ آیا۔ یہ محاورہ کسی کی محنت و مشقت سے انکار کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس میں محنت ومشقت کا اعتراف کیاگیا ہے ۔ پہاڑ کھودنا آسان نہیں، محنت طلب کام ہے۔ یہ محاورہ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب کوئی شخص غلط سمت میں سخت محنت ومشقت کرے مگر اس کا حاصل کچھ نہ نکلے یا محض معمولی نکلے۔
ستمبر ۱۹۶۹ء کے اشارات میں نے دوطرح کے لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے لکھے ہیں ۔ ایک تو وہ مسلمان جو انسان کے چاند پر پہنچ جانے کی خبر سے سخت متوحش تھے اور اسے مذہب اسلام کے خلاف تصور کرکے اس خبر کا انکار کررہے اور اسے محض پروپیگنڈا قرار دے رہے تھے۔ خود میرے پاس ایک خط آیاتھا جس میں ثابت کیاگیا تھا کہ انسان چاند پر نہیں پہنچ سکتا۔ اس طرح کی خبریں جھوٹی ہیں ۔ ہمارے دوسرے مخاطب وہ لوگ تھے جو سائنس کی اس چھلانگ کو قدرت پرفتح قرار دے رہے تھے، یا دیتے رہتے ہیں ۔غلط فہمی کے شکار مسلمانوں کو قرآن وحدیث کے دلائل وواقعات سے (جن پروہ یقین رکھتے ہیں ) یہ بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا خلیفہ اور نائب بنایا ہے اوراس کو عظیم قوتیں اورصلاحیتیں عطافرمائی ہیں ۔ آسمان وزمین کو اس نے انسان کی خدمت کے لیے مسخر کررکھا ہے ۔ دوسری طرف انھیں بتایاگیا یا انھیں یاد دلایا گیا کہ چاند پرانسان کا قدم رکھ دینا کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے جو عقل کو اس طرح حیرت زدہ کردے کہ ہم پر وحشت طاری ہوجائے اور ہم اس خبر کا انکار کرنے لگیں ۔ اس لیے کہ ہم اور آپ جس نبی کی امت ہیں وہ چاند کو دوٹکڑے کرچکے ہیں ۔ اور سات آسمانوں کو طے کرکے عرش الٰہی تک پہنچ چکے ہیں ۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر جاچکے ہیں اور وہیں مقیم ہیں ۔ حضرت آدم وحوا بھی آسامان ہی پر سے زمین پر اتارے گئے ہیں ۔ ان واقعات سے معلوم ہوا کہ آسمانوں پرپہنچنا نہ تو ناممکن ہے اورنہ ایسا واقعہ ہے جو کبھی ظہور میں نہ آیاہو۔ اب اگرانسان اللہ ہی کی دی ہوئی عقل وفہم سے کام لے کر اپنی جدوجہد سے چاند پر پہنچ گیا ہے تو مسلمانوں کے لیے اس میں تشویش کی کیا وجہ ہے اورہم کیوں اس کا انکار کریں ؟ میں نے دلائل وواقعات پیش کرنے کے بعد آخری پیراگراف میں لکھا ہے
’’جیسا کہ ان اشارات کی ابتدامیں عرض کیاگیا، جو مسلمان ان حقیقتوں سے آگاہ ہیں ان کے لیے کسی انسان کا چاند پر قدم رکھ دینا کوئی حیرت انگیز واقعہ بھی نہیں ہے چہ جائیکہ اس سے کوئی تشویش پیداہو، بلاشبہ یہ سائنس دانوں کے کمال فن کا مظاہرہ ہے، لیکن اس سے دین اسلام کی کسی تعلیم پرکوئی زد نہیں پڑتی۔‘‘
چند سطروں کے بعد میں نےلکھا ہے
’’یہی وجہ ہے کہ ان ناواقف مسلمانوں میں سےکچھ لوگ انسان کے خلائی سفر اور چاند پر اس کے نزول کی خبر سے متوحش ہوگئے ہیں ۔ اگر وہ کم سے کم ان حقیقتوں سے بھی واقف ہوتے جن کا اوپر ذکر کیاگیا ہے تو پریشان نہ ہوتے۔‘‘ (ص۶۴)
ان سطورسےواضح ہے کہ شق القمر اور معراج وغیرہ کے واقعات مسلمانوں کے توحش کو دور کرنے کے لیے پیش کیے گئے ہیں ۔ ان واقعات کا سائنسی کارنامہ یا کارناموں سے تقابل ہرگز مقصود نہیں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے میرے اشارات کا آخری پیراگراف پڑھا ہی نہیں ہے۔ اگر آپ پڑھ لیتے تو میری تحریر کامقصد آپ کے سامنے آجاتااور میرے ذہن کے بارے میں آپ کو وہ غلط فہمیاں نہ ہوتیں جنہیں آپ نےتیز وتند لہجے میں پیش کیاہے۔ مقصد تحریر نہ جاننے کی وجہ سے آپ کی تنقید کا بڑا حصہ میرے اشارات سے غیرمتعلق ہوگیا ہے۔
ہمارے دوسرے مخاطب وہ سائنس داں اور ان کے معتقدین تھے جو دین ومذہب سے بیزار ہونےکی وجہ سے خلائی سفر کے کارناموں کو قدرت پرفتح سمجھ رہے ہیں اور ان میں کے بہت سے لوگ تو کھلم کھلا خدا اور آخرت کا انکار کررہے ہیں ۔ ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے میں نے تسخیر کائنات کا صحیح مفہوم بیان کیا ہے اوراسی طرح کے منکرین آخرت یا فکر آخرت سے بے نیاز لوگوں کے ذہن کی نشان دہی کےلیے میں نے ص۵ پر سورۃ النجم کی آیت ۲۹،۳۰ او رسورۃ الکہف کی آیت پیش کی ہے۔ مجھے سب سے زیادہ حیرت اس تنقید پرہوئی جو آپ نے ص۵پر کی ہے۔ کیوں کہ ان آیتوں کے مصداق افراد کی صراحت اسی صفحہ پرموجود ہے۔ میں نے لکھا ہے
’’یہ آیت آج کی بے دین حکومتوں، ملحد دانشوروں اوردنیا پرست سائنس دانوں پر پوری طرح صادق آتی ہے اور ذلک مبلغھم من العلم (بس اسی دنیا تک ہے ان کے فہم کی رسائی) کے بلیغ جملے میں ان کے ذہن اور ان کی تمام علمی، تحقیقی اور خلائی جدوجہد کی تصویر کھنچ آئی ہے۔‘‘
میں نے یہ پیراگراف اس عبارت پرختم کیاہے
’’دین ومذہب سے ان کی بیزاری اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ خود ان کی تحقیق کے نتیجے میں جو چیز نہ صرف اللہ کے وجود بلکہ اس کی قدرت وحکمت کی واضح دلیل بن رہی ہوتی ہے یہ اس کو بھی انکار خدا کی دلیل بنالیتے ہیں ۔‘‘
ان عبارتوں کو پڑھ کر یہ کیسے سمجھاجاسکتا ہے کہ لکھنے والا سائنسی تحقیقات اورانسانی مساعی کی تحقیر کرکے لوگوں کو راہ فرار اختیار کرنے کی تبلیغ اورعملی تلقین کررہاہے۔ اس عبارت میں تو صراحت کے ساتھ یہ کہاگیا ہے کہ سائنسی تحقیقات اللہ کی قدرت او رحکمت کی واضح دلیل بنتی ہیں، مگر افسوس اس کا ہے کہ دین سے بیزار سائنس داں اسے دینی حقائق کے انکار کی دلیل بنالیتے ہیں ۔ اس پورے پیراگراف کے آخر کس جملے سے یہ نکلتا ہے کہ میں نے دین ودنیا والی جاہلانہ تقسیم پرمہرتصدیق ثبت کردی ہے؟اس پورے پیراگراف کے مخاطب خدا اور آخرت کا انکار کرنے والے لوگ ہیں ۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ آپ نے کس طرح اس کا مخاطب ان لوگوں کو سمجھ لیا جو اللہ اورآخرت پریقین رکھتے ہیں ۔اگر بات مبہم ہوتی تو میں خیال کرتا کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے لیکن جب صریح الفاظ میں مخاطب وہ لوگ ہیں جو صرف دنیا کی زندگی کو اپنا مطمح نظر بناتے ہیں تو پھر آپ کی طرف سے کوئی عذر سمجھ میں نہیں آتا۔اندیشہ یہ ہوتا ہے کہ کہیں آپ یہ تو نہیں سمجھ رہے ہیں کہ سائنسی کارنامے یا اور دوسرے کام ہرحال میں دین کے کام ہیں خواہ اس کے کرنے والے آخرت کے منکر ہی کیوں نہ ہوں ۔ اگر آپ کا یہ خیال ہو تو اس کی تصحیح کرلیجیے۔ آخرت کا انکار کرکے یا فکر آخرت سے بے نیاز ہوکر سائنس داں زہرہ، مریخ یا اس سے بھی آگے کسی سیارے پرقدم رکھ دیں تو ان کا یہ کارنامہ خالص دنیوی کارنامہ ہوگا۔ دین سے ذرہ برابر اس کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔ دنیا کے کام دین کا حکم اس وقت حاصل کرتے ہیں جب کرنے والا اللہ، رسول اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور وہ کام اس نے اللہ ورسول کے احکام کے تحت اللہ کی خوش نودی حاصل کرنے کےلیے کیا ہو۔ معلوم نہیں کہاں سے آپ نے یہ معلوم کیا ہے کہ دنیا اور دین کی تقسیم ہرحال میں جاہلانہ تقسیم ہوتی ہے۔ میں نے ص۵ پر سورۃ الشوریٰ اور الکہف کی جو آیتیں نقل کی ہیں اگر آپ ان پر غور کرلیتے تو آپ کو اپنے خیال کی غلطی معلوم ہوجاتی۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ دنیا اور دنیوی زندگی کو آخرت سے الگ خانے میں رکھا ہے ۔ قرآن میں متعدد مقامات پر کافر کی ایک بڑی خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پرترجیح دیتا ہے۔ اگر دنیا اور دین وآخرت ہر حال میں ایک ہیں تو پھر یہ تفریق وتقسیم کیسی ہے اور کیوں ہے؟اس پرآپ کو غورکرنا چاہیے۔ چاند پر قدم رکھنا تو دور کی بات ہے۔ آخرت کا منکر اگر بالفرض مسجد بھی تعمیر کردے تو قرآن کی نظر میں یہ دین کاکام نہ ہوگا۔ کھلی بات ہے کہ جو لوگ دین کا انکار کرتے ہوں ان کے کسی کام کو کس منطق سے آپ دینی کام کہیں گے؟
آپ نے اپنی ایک عبارت کے قوسین کے درمیان لکھا ہے کہ کشف وکرامات کا ظہور ہرزمانے میں مفقود رہاہے۔آپ کا یہ خیال بھی صحیح نہیں ہے۔ اس کے لیے بھی آپ قرآن،حدیث، سیروسوانح اور اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیجیے۔ میرے اشارات میں شاید اس کرامت پرآپ کی نظر نہیں پڑی جو میں نے قرآن سے نقل کی ہے ۔آپ ص۸کی آخری اور ص۶۳ کی ابتدائی سطریں پڑھیے۔ اس کرامت کاذکر بھی میں نے اس لیے کیا ہےکہ سائنسی تحقیقات کے ذریعے سرعت رفتار میں جو ترقی ہوئی ہے وہ بھی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس پرہم مسلمان حیرت زدہ اور حیران رہ جائیں ۔آپ نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ حضورﷺ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پرپہنچنا، اللہ کی قدرت کی عظیم نشانی تو ہوسکتا ہے لیکن آپ کی سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ وہ واقعات انسان کی صلاحیت کا محیرا لعقول مظاہرہ کس طرح بن گئے ؟ آپ نے مجھ سے پوچھا ہے کہ ان واقعات کا کون سا جز انسانی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے؟ اس سوال سے ظاہر ہوتاہے کہ آپ کےنزدیک انسانی صلاحیت کا ظہور صرف ان مادی تدبیروں ہی کے ذریعے ہوسکتا ہے جو انسان اپنے کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اختیار کرتاہے اور اگر وہ مقصد ظاہری اورمادی تدبیر کے بغیر حاصل ہوجائے تو وہ انسانی صلاحیت کا مظاہرہ نہ ہوگا۔ مثلاً دو شخص کسی بلند چھت پرپہنچ گئے، ایک نے بڑی محنت سے سیڑھی بنائی، اسے چھت سے لگایا اور ایک ایک قدم اٹھاکر چھت پر پہنچا اور دوسرا شخص بغیر کسی سیڑھی کے اور بغیر کسی ظاہری تدبیر کے چھت پرپہنچ گیا۔ آپ کہیں گے کہ پہلے واقعہ میں انسانی صلاحیت کا مظاہرہ ہوا ہے اور دوسرے واقعہ میں محض اللہ تعالیٰ کی قدرت نے اسےچھت پرپہنچادیاہے، اس میں انسانی صلاحیت کا کوئی دخل نہیں ہے۔ میر اخیال یہ نہیں ہے ۔ میں دوسرے واقعہ کو بھی انسانی صلاحیت کا مظاہرہ سمجھتا ہوں ۔ میرے نزدیک کسی ظاہری سبب کےبغیر کسی پتھر کے چھت پرپہنچ جانے اور کسی انسان کے پہنچ جانے میں فرق ہے۔ پہلی صورت میں پتھر کی کسی صلاحیت کا مظاہرہ نہیں ہے اور دوسری صورت میں انسان کی اپنی صلاحیت کا بھی دخل ہے۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ نبی ﷺ کی معراج یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پراٹھالیا جانا ایسا ہی ہے جیسے اللہ کسی پتھر کو اپنی قدرت قاہرہ سے آسمان پر اٹھالے تو اس کا یہ خیال غلط ہے۔ میں ان واقعات کو اللہ کی قدرت کے ساتھ ہی ساتھ انسانی صلاحیت کا بھی عظیم مظاہرہ سمجھتا ہوں، لیکن اس چیز کو تفصیل سے پیش کرنے کے لیے مادیت، روحانیت، معجزہ وکرامت کی حقیقت، انسان کی خلافت ونیابت اور اس کی صلاحیتوں پر لمبی بحث ہونی چاہیے جس کا اس مختصر جواب میں موقع نہیں ہے اور جیسا کہ میں نے اوپر لکھا جس مقصد سے میں نے اشارات میں ان واقعات کاذکر کیا ہے اس کے لیے ایک لمبی بحث کی ضرورت بھی نہیں ہے۔