ستمبر ۱۹۶۹ء کے اشارات میں آپ نے لکھا ہے کہ’’ صالحین کے جسم میں بھی یہ صلاحیت پیداہوسکتی ہے کہ جنوں کی رفتار بھی اس سے مات کھاجائے۔‘‘ لیکن قرآن کہتا ہے ’’جس شخص کے پاس کتاب کا ایک علم تھا وہ بولا میں آپ کی پلک جھپکنے سےپہلے اسے لائےدیتا ہوں ۔‘‘ یہاں کتاب کا علم ہے نہ کہ صالحیت اوراگر صالحیت ہے تو کرامات اور غوث پاک کے کارناموں سے آپ کیسے انکار کرسکیں گے؟ دراصل یہ معجزے اورمافوق الفطرت کارنامے انبیاء علیہم السلام سے ہی صادر ہوئے ہیں اور وہ بھی اللہ کے اذن سے۔ آپ نے لکھتے وقت اس کا خیال نہیں فرمایا کہ اس سے بریلی مکتب فکر کو خاص حمایت حاصل ہوجاتی ہے۔
دوسرے چاند پر انسانی آبادی کے امکان کو آپ نے خارج ازبحث کردیا ہے۔ اس دعوے کا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے؟ حالاں کہ چاند یہ انسان کے پہنچ جانے کے بعد سیاروں پرانسانی آبادی کے امکانات قوی ہوگئے ہیں ۔ ازراہ کرم ان دوشبہات کو آئندہ شمارے میں ضرور دور فرمائیں ۔
جواب
آپ کے پہلے شبہے کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے معجزہ وکرامت کے درمیان فرق جاننے کی کوشش نہیں کی اورنہ آپ نے یہ معلوم کیا کہ کرامت کے بار ے میں اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ کیا ہے؟خارق عادت یا خلاف عادت چیزوں کا صدورجب انبیاء کرام علیہم السلام سے ہو تواسے معجزہ کہتے ہیں اور جب وہ اولیا وصالحین سے صادر ہوں تو اسے کرامت کہتے ہیں ۔کرامۃ الاولیاء حق (اولیا کی کرامت برحق ہے)کا عقیدہ عقائدکی کتابوں میں درج اور قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔ علماء بریلی اورعلماء دیوبند دونوں ہی اس کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ یہ عقیدہ اہل السنۃ والجماعۃ کامسلمہ عقیدہ ہے۔ معلوم نہیں کس طرح آپ نے اس کو صرف بریلی مکتب فکر کا خیال سمجھ لیا۔
اگر اللہ کے کسی صالح بندے کی کرامت صحیح طورپر ثابت ہوتو ہم اس کا انکار نہیں کرتے۔ دیکھنے کی چیز صرف یہ ہے کہ جس کرامت کا انتساب کیاگیا ہے وہ واقعی ثابت بھی ہے یا نہیں ۔میں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار کا جو واقعہ نقل کیا ہےوہ کسی نبی کا معجزہ نہیں بلکہ ایک صالح بندے کی کرامت ہی ہے۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے جن لوگوں کو مخاطب کرکے ملکہ سبا کا تخت لانے کو کہا تھا ان میں کوئی بھی نبی نہ تھا بلکہ وہ سب جن تھے یا صالح انسان۔’کتاب کاایک علم‘ سے مراد نبوت ورسالت ہرگز نہیں ہے۔ آپ نے یہ ٹھیک لکھا ہے کہ انبیاء سے معجزے اللہ کی اذن سے صادر ہوتے ہیں ۔ اسی طرح کرامتیں بھی اس کے اذن ہی سے صادر ہوتی ہیں ۔
آپ کی دوسری بات کا جواب یہ ہے کہ آپ نے میری عبارت محض سرسری طورپر پڑھی ہے۔ نہ میں نے اپنی طرف سے چاند پرآبادی کو خارج ازبحث قراردیا ہے اورنہ خارج ازامکان بلکہ محض ضمنی طورپر یہ لکھا ہے کہ خود سائنس دانوں کی اب تک کی تحقیقات کے مطابق چاند پر زندگی کی کوئی علامت نہیں پائی گئی ہےاور نہ وہاں کی زمین اور فضا انسانی آبادی کے لیے سازگار ہے۔ زندگی گزارنے کے پورے سامان کے ساتھ چاند گاڑی پربیٹھ کر چند گھنٹوں کےلیے یا چند دنوں کے لیے چاند پراترجانا ایک بات ہے اوروہاں مستقل قیام اور آبادی دوسری بات ہے ۔ معلوم نہیں آپ نے کہا ں سے یہ معلوم کیا ہے کہ چاند پر انسان کے پہنچ جانے سے سیاروں پرانسانی آبادی کے امکانات قوی ہوگئے ہیں ۔ مجھے اب تک اس کا علم حاصل نہیں ہواہے۔ میں اب تک یہی جانتا ہوں کہ سائنس داں اس پرمتفق نہیں ہیں کہ وہاں مستقلاً انسان آباد ہوسکتا ہے ۔ بہرحال میں نے جو بات کہی ہے وہ اب تک کسی سائنسی تحقیقات کی روشنی ہی میں کہی ہے، دعوے کے طورپر نہیں کہی ہے۔ (نومبر ۱۹۶۹ء ج۴۳ ش۵)