سجدۂ سہو کے چند مسائل

اتفاقاً نماز مغرب میں امام صاحب سے سہواً قعدۂ اولیٰ ترک ہوگیا اور وہ سیدھے قیام میں چلے گئے۔ پھر کسی مقتدی کے سبحان اللہ کہنے پروہ قیام سے قعدۂ اولیٰ کی طرف لوٹ گئے۔نماز کے بعد بعضوں نے کہا کہ بغیر لوٹے سجدۂ سہو سے نماز کی تکمیل ہوجاتی۔ مگر بعض حضرات نے نماز کو قطعی طورپر فاسد بتایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نماز دوبارہ پڑھی گئی۔ اب دریافت طلب امریہ ہے کہ 

۱-       قعدۂ اولیٰ سہواًترک کرکے اگر امام سیدھا کھڑا ہوجائے اس کے بعد اسے خود یاد آجائے یا مقتدی تنبیہ کرے تو اس کو کیا کرنا چاہیے؟

۲-      نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں کن مواقع پر سہو ہواہے؟ اور ان مواقع پر حضورؐ نے کیا عمل فرمایاہے؟

۳-      اگرامام سیدھا کھڑا ہوجانے کے بعد پھر بیٹھ جائے تو کیا اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اوراس کو دہرانا ضروری ہے؟

جواب

۱- کوئی شخص تنہا نماز پڑھ رہاہو یا کسی جماعت کا امام ہودونوں صورتوں میں اگر وہ قعدۂ اولیٰ سہواً ترک کرکے سیدھا کھڑا ہوجائے تو اب اس کو بیٹھنا نہیں چاہیے۔ بلکہ قعدۂ اخیرہ کےبعد سجدۂ سہو کرکے نماز پوری کرلینی چاہیے۔ یہی طریقہ سنت کے مطابق ہے جس کی تھوڑی تفصیل سوال نمبر ۲ کے جواب میں آرہی ہے۔ ہاں اگر وہ پوری طرح کھڑا نہ ہوا ہو اور اسی اثنا میں اسے خودیاد آجائے یا مقتدی تنبیہ کرے تو بیٹھ جانا چاہیے۔ اس صورت میں سجدۂ سہو کی ضرورت نہیں ہے۔

۲- نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے چار مواقع پرنماز میں سہوہواہے

الف-عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بارظہر کی نماز میں آپؐ سے قعدۂ اولیٰ  سہواً ترک ہوگیا اور آپ تیسری رکعت میں کھڑے ہوگئے۔ جب پوری نماز پڑھ چکے تو سہو کے دوسجدے کرکے اس کمی کی تلافی فرمادی۔ علامہ ابن قیم نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ اس حدیث کے بعض طریقوں میں یہ بات بھی ہے کہ جب آپ کھڑے ہوگئے تو مقتدی صحابہ نے سبحان اللہ کہہ کریاددلایا۔ لیکن حضورؐ نہ بیٹھے بلکہ اشارے سے فرمایا کہ تم بھی کھڑے ہوجائو۔ اس کی تاکید مزید دوروایتوں سے ہوتی ہے۔مسند اور ترمذی میں ہے کہ ایک بارمغیرہ بن شعبہؓ نے نماز پڑھائی اور قعدۂ اولیٰ ترک ہوگیا۔ مقتدیوں نے سبحان اللہ کہہ کر ان کو متنبہ کیا تو انھوں نے اشارے سے کہا کہ تم لوگ بھی کھڑے ہوجائو۔ نماز پوری کرکے انھوں نے سہو کے دوسجدے کیے اور کہاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک بار اسی طرح عمل فرمایا تھا۔ دوسری روایت بیہقی کی ہےکہ ایک بار عقبہ بن عامرجہنی ؓ کے ساتھ بھی یہی واقعہ پیش آیا اور مقتدیوں نے سبحان اللہ کہہ کر تنبیہ کی لیکن انھوں نے نماز جاری رکھی اور آخرمیں سجدۂ سہو کے بعد جب فارغ ہوئے تو کہا’’تمہاری تسبیح (سبحان اللہ) میں نے سنی تھی۔تم چاہتے تھے کہ میں بیٹھ جائوں لیکن سنت وہی ہے جو میں نے کیا۔

ب-ایک بار عصر کی نماز میں آپؐ نے دو رکعتوں کے بعد ہی سلام پھیردیا۔ پھر حضرت ذوالیدینؓ کے توجہ دلانے پر آپ نے باقی دورکعتیں ادا فرمائیں اور سجدۂ سہو کیا۔

ج- حضرت عمران بن حصینؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک بار آپ نے عصر کی نماز میں تین رکعتوں کے بعد سلام پھیردیا، پھر توجہ دلانے پرایک رکعت ادا کرکے سجدۂ سہوکیا۔

د- حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک بار آپ نے پانچ رکعتیں پڑھ لیں، پھر توجہ دلانے پرسہو کے دوسجدے کیے۔ یہی چار مواقع ہیں جن میں حضورؐ سے نماز میں سہوہواہے۔ میں نے ان صحیح احادیث کی تفصیلات چھوڑکر مختصراً اصل بات یہاں لکھ دی ہے۔

۳- تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ سیدھا کھڑا ہوکر بیٹھ جانے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔سجدۂ سہو کرلینے سے مکمل ہوجاتی ہے۔  فقہ حنفی کا صحیح قول یہی ہے۔  اور جمہورفقہاء کا مسلک بھی یہی ہے۔ فقہائے احناف کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔لیکن اس قول کی کوئی تشفی بخش دلیل نہیں ہے۔ تیسری رکعت میں کھڑے ہونے کے بعد پھر بیٹھ جانا خلاف سنت ضرورہے لیکن اس سے نماز فاسد وباطل ہوجانے کی کوئی وجہ نہیں۔              (ستمبر ۱۹۶۴ء،ج۳۳،ش۳)