جواب
شان نزول کے بارے میں یہ بات پہلے ہی سمجھ لینے کی ہے کہ مفسرین جب کسی واقعے کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ آیت اس واقعے کے بارے میں نازل ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جب واقعہ پیش آیااُسی وقت وہ آیت نازل ہوئی تھی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس واقعے سے اس آیت کا تعلق ہے۔
معوّذتین کے متعلق یہ بات ثابت ہے کہ وہ مکے میں نازل ہوئی ہیں اور احادیث میں جادو کا جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ مدینہ طیبہ کا ہے۔اس لیے یہ کہنا بداہتاً غلط ہے کہ جب جادو کا وہ واقعہ پیش آیا،اُس وقت یہ دونوں سورتیں نازل ہوئیں ۔دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو حضور ﷺ کو ان سورتوں کے پڑھنے کی ہدایت فرمائی گئی۔
جادو کی حقیقت اگر آپ سمجھنا چاہیں تو قرآن مجید میں حضرت موسیٰ ؈ کا قصہ پڑھیں ۔ جادوگروں نے لاٹھیوں اور رسیوں کے جو سانپ بناے تھے،وہ حقیقت میں سانپ نہیں بن گئے تھے،مگر اس مجمع نے جو وہاں موجود تھا یہی محسوس کیا کہ یہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپوں میں تبدیل ہوگئی ہیں ۔حتیٰ کہ خود حضرت موسیٰ ؈ کی آنکھیں بھی پیغمبر ہونے کے باوجود اس قدر مسحور ہوگئیں کہ انھوں نے بھی انھیں سانپ ہی دیکھا۔قرآن مجید کا بیان ہے کہ:
فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْہَبُوْہُمْ (الاعراف:۱۱۶)
’’جب جادوگروں نے اپنے انچھر پھینکے تو لوگوں کی آنکھوں کو مسحور کر دیا اور انھیں مرعوب کردیا۔‘‘
قَالَ بَلْ اَلْقُوْا۰ۚ فَاِذَا حِبَالُہُمْ وَعِصِيُّہُمْ يُخَيَّلُ اِلَيْہِ مِنْ سِحْرِہِمْ اَنَّہَا تَسْعٰيo فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِہٖ خِيْفَۃً مُّوْسٰى ( طٰہٰ :۶۶،۶۷)
’’پس یکایک ان کے جادو کی وجہ سے ان کی لاٹھیاں اور رسیاں موسیٰ کو دوڑتی ہوئی محسوس ہوئیں اور موسیٰ اپنے دل میں ڈر گیا۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ جادو قلبِ ماہیت نہیں کرتا بلکہ ایک خاص قسم کا نفسیاتی اثر ڈال کر آدمی کے حواس کو متاثر کردیتا ہے۔نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جادو کی یہ تاثیر عام انسانوں پر ہی نہیں ،انبیا پر بھی ہوسکتی ہے۔اگرچہ اس ذریعے سے کوئی جادوگر کسی نبی کو شکست نہیں دے سکتا،نہ اُس کے مشن کو فیل کرسکتا ہے،نہ اُسے اِ س حد تک متاثر کرسکتا ہے کہ وہ جادو کے زیر اثر آکر منصب نبوت کے خلاف کوئی کام کر جائے، لیکن بجاے خود یہ بات کہ ایک نبی پرجادو کا اثر ہوسکتا ہے،خود قرآن مجید سے ثابت ہے۔
احادیث میں نبی ﷺ پر جادو کا اثر ہونے کی جو روایات آئی ہیں ،ان میں کوئی چیز بھی عقل،تجربے اور مشاہدے کے خلا ف نہیں ہے،اور نہ قرآن کی بتائی ہوئی اس حقیقت کے خلاف ہے جس کی میں نے اوپر تشریح کی ہے۔نبی اگر زخمی یا شہید ہوسکتا ہے تو اس کا جادو سے متاثر ہو جانا کون سی تعجب کی بات ہے؟روایات سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے و ہ صرف یہ ہے کہ چند روز تک حضور ﷺ کو کچھ نسیان سا لاحق ہوگیا تھا اور وہ بھی تمام معاملات میں نہیں بلکہ بعض معالات میں جزوی طور پر۔
(ترجمان القرآن، مئی،جون ۱۹۵۲ء)