جواب
ان حالات میں آپ اپنے استعمال کے لیے تو بہرحال گیہوں خرید ہی سکتے ہیں ۔کیوں کہ اس صورت میں حساب رکھنے کا کوئی سوال نہیں ہے۔البتہ دکان کے معاملے میں ایک قباحت یہ ہے کہ جس بھائو سے فی الواقع مال خریدا جاتا ہے ،اس کا کھاتے میں اندراج پُر خطر بنادیا گیا ہے۔اگر اس کاروبارسے بچنے کی صورت ہو تو بہتر ہے، اور اگر آپ کے لیے بس یہی ایک ذریعۂ معاش ہو،اور اس کے سوا کسی دوسرے کام سے رزق پیدا کرنا آپ کے لیے ممکن نہ ہوتو پھر جائز طور پر جو طریق کار آپ اختیار کرسکتے ہیں ،وہ یہ ہے کہ اپنے حسابات اپنے واقعی لین دین کے مطابق ہی رکھیں ،اور جب گرفتار کیے جائیں تو عدالت میں بالکل ٹھیک ٹھیک بیان دے دیں ۔عدالت سے صاف کہیے کہ اس حکومت نے اپنی غلط پالیسی سے پورے ملک کوجھوٹا بننے پر مجبور کردیا ہے۔کنٹرول کیا تھا تو کنٹرول ریٹ پر اشیاے ضرورت کی فراہمی کا ذمہ بھی اس کو لینا چاہیے تھا۔ لیکن اس نے یہ انتظام توکیا نہیں اور نرخ مقرر کردیے۔ اب اگر ہم اس کے مقرر کیے ہوئے نرخوں کے مطابق مال خریدنے پر اصرار کرتے ہیں تو بازار سے ضروریات زندگی فراہم کرنا غیر ممکن ہے ۔ کنٹرول ریٹ کا نام لیا جائے تو بائع سرے سے مال ہونے کا ہی انکار کردیتا ہے، اور بلیک مارکیٹ سے اپنی ضروریات پوری کی جائیں تو آپ گلا دبانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں ۔ بہرحال ہم نے جتنے میں مال خریدا ہے ہم تو وہی ظاہر کریں گے۔آپ کے قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے جھوٹ بولنے کی وہ پالیسی ہم اختیار نہیں کرسکتے جو ملک کے لاکھوں کروڑوں باشندوں نے مجبوراً اختیار کررکھی ہے۔ آپ کا انصاف اگر ہمیں مجرم سمجھتا ہے تو ضرور سزا دیجیے۔ مگر انصاف کے جن اصولوں سے انسانی عقلِ عام واقف ہے،ان کی رُو سے تو کنٹرول آرڈی نینس جاری کرنے والے بزرگ سے لے کر نیچے تک وہ سارا عملہ اصل مجرم ہے جو ان احکام کو نافذ کررہا ہے اورجس کی زبردستی سے سارا ملک جھوٹ اور بے ایمانی کے طریقے اختیارکرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ (ترجمان القرآن ، مارچ ۱۹۴۶ء)