جواب
قزع کی تعریف اور حکم
سر کے بالوں کے متعلق شریعت کا حکم اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ حدیث میں ’’قزع‘‘کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔قزع کچھ بال مونڈنے اور کچھ رکھنے کو کہتے ہیں ۔ یہی چیز ممنوع بالذات ہے اور اسی سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔باقی رہیں دوسری وضعیں ، تو ان میں سے کسی کے عدم جواز کا ثبوت نہیں ہے،اس لیے وہ سب جائز ہیں ، خواہ کوئی سارا سر مونڈ دے یا سارے سر کے بال کتروائے،یا کچھ کتروائے اور کچھ رکھے،یا نصف کان تک رکھے،یا کان کی لو تک رکھے،یا اس سے بھی نیچے تک،یہ سب اس لیے جائزہیں کہ اُصولاً جو کچھ ممنوع نہیں ہے وہ مباح ہے۔
بعض لوگ کچھ کترنے اور کچھ رکھنے کو بھی قزع کی تعریف میں لاتے ہیں ،مگر یہ نہ اس لفظ کا صریح مدلول ہے اور نہ شارع نے بعینہٖ اس چیز کو منع کیا تھا۔اصل ممنوع کچھ مونڈنا اور کچھ رکھنا ہے،نہ کہ کچھ کتروانا اور کچھ رکھنا۔ اگر ایک شخص ایک کو دوسرے پر قیاس کرکے ممنوع سمجھے تو اپنے قیاس پر اسے خود ہی عمل کرنا چاہیے یا پھر اس شخص کو جو اس کے قیاس کی صحت کا قائل ہو۔دوسرے کسی شخص کو جو اس قیاس سے متفق نہ ہو،وہ نہ مجبور کرسکتا ہے کہ وہ اس کا قیاس تسلیم کرے، اور نہ اس بنا پر گناہ گار ٹھیرا سکتا ہے کہ اس نے حکم رسولؐ کے اس معنی کی پیروی کیوں نہ کی جو میں نے اپنے قیاس واستنباط سے بیان کیے تھے۔
تشبہّ بالکفار کا مفہوم
بعض لوگ اس نوعیت کے بالوں کو تشبہ کی تعریف میں لاتے ہیں ۔ مگر وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ تشبہ جس سے شارع نے منع فرمایا ہے،صرف اس صورت میں ہوتا ہے جب کہ ایک شخص بحیثیت مجموعی اپنی وضع قطع کافروں کے مانندبناے۔ غیر مسلموں کے فیشن،لباس، اوضاع میں سے بعض اجزا کو لے لینا تشبہ کی تعریف میں نہیں آتا۔ ورنہ آخر اس بات کی کیا توجیہ کی جائے گی کہ نبی ﷺ نے خود رومی جبہ پہنا ہے،کسروانی قبا پہنی ہے، شلوار کو پسند کرکے خریدا ہے جو ایران سے عرب میں نئی نئی پہنچی تھی، اور حضرت عمرؓ نے بُرنس پہنی ہے جو مسیحی درویش پہنا کرتے تھے۔لہٰذا جزوی تشبہ کی بنا پر کسی کو گناہ گار ٹھیرانا یا فاسق قرار دینا زیادتی ہے۔ البتہ اگر بالوں کی یہ وضع اسی طرح ممنو ع ہوتی جس طرح بڑی بڑی مونچھوں کو مجوس کی وضع کہہ کر منع کردیا گیا تھا،تو البتہ اس طرح کے بال کتروانے کو گناہ قرار دیا جاسکتا تھا۔
اجتہادی حرام کا حکم
یہاں میں یہ تصریح کردینا چاہتا ہوں کہ میں اُصولاً اس بات کا قائل ہوں ،اور اس اُصول پر مجھے شدت کے ساتھ اصرار ہے کہ آدمی صرف حکم منصوص کی خلاف ورزی سے ہی گناہ گار قرار پاسکتا ہے۔قیاس واستنباط سے نکالے ہوئے احکام کی خلاف ورزی کسی کو گناہ گار نہیں بناتی، بجز اس شخص کے جو اس قیاس واستنباط کا قائل ہو۔اسی طرح مجھے اس بات پر بھی اصرار ہے کہ حرام صرف وہ ہے جسے خدا اور رسول ؐ نے بالفاظ صریح حرام کہا ہو،یا جس سے صاف الفاظ میں منع کیا ہو، یا جس میں مبتلا ہونے والے کو سزا کی وعید سنائی ہو،یا نصوص کے اشارات واقتضاأت سے جن کی حرمت مستنبط ہونے پر اجماع ہو۔ رہیں وہ چیزیں جو قیاس واجتہاد سے حرام ٹھیرائی گئی ہوں اور جن میں دلائل شرعیہ کی بنا پر دو یا دو سے زیادہ اقوال کی گنجائش ہو،تو وہ مطلقاً حرام نہیں ہیں ، بلکہ صرف اس شخص کے لیے حرام ہیں جو اس قیاس واجتہاد کو تسلیم کرے۔ میرے نزدیک اس حقیقت سے اغماض برتنا ان اہم اسباب میں سے ایک ہے جن کی بنا پر اُمت کے مختلف گروہوں نے ایک دوسرے کی تضلیل وتفسیق کی ہے۔ (ترجمان القرآن، ستمبر۱۹۵۲ء)