جواب
میں تمام بزرگانِ دین کا احترام کرتا ہوں ، مگر پرستش ان میں سے کسی کی نہیں کرتا، اور انبیاکے سوا کسی کو معصوم بھی نہیں سمجھتا۔ میرا طریقہ یہ ہے کہ میں بزرگانِ سلف کے خیالات اور کاموں پر بے لاگ تحقیقی وتنقیدی نگاہ ڈالتا ہوں ۔جو کچھ ان میں حق پاتا ہوں اسے حق کہتا ہوں ، اور جس چیز کو کتاب وسنت کے لحاظ سے یا حکمت عملی کے اعتبار سے درست نہیں پاتااس کو صاف صاف نادرست کہہ دیتا ہوں ۔
میرے نزدیک کسی غیر نبی کی راے یا تدبیر میں خطا پائے جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی عظمت وبزرگی میں کوئی کمی آئے۔اس لیے میں سلف کی بعض رایوں سے اختلاف کرنے کے باوجود ان کی بزرگی کا بھی قائل رہتا ہوں اور میرے دل میں ان کا احترام بھی بدستور باقی رہتا ہے۔ لیکن جو لوگ بزرگی اورمعصومیت کو ہم معنی سمجھتے ہیں ،اور جن کے نزدیک اُصول یہ ہے کہ جو بزرگ ہے وہ خطا نہیں کرتا، اور جو خطا کرتا ہے وہ بزرگ نہیں ہے،وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بزرگ کی راے یا طریقے کو نادرست قرار دینالازمی طو رپر یہ معنی رکھتا ہے کہ ایسا خیال ظاہر کرنے والا ان کی بزرگی کا احترام نہیں کرتا اور ان کی خدمات پر قلم پھیرنا چاہتا ہے۔پھر وہ اس مقام پر بھی نہیں رُکتے، بلکہ آگے بڑھ کر اس پر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ان سے بڑا سمجھتا ہے۔حالاں کہ علمی معاملات میں ایک شخص کا دوسرے کی راے سے اختلاف کرنا اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ وہ جس سے اختلاف کررہا ہو،اس کے مقابلے میں اپنے آ پ کو بڑا بھی سمجھے اور اس سے بہتر بھی۔امام محمدؒ اور امام ابو یوسفؒ نے بکثرت معاملات میں امام ابوحنیفہ ؒ کی راے سے اختلاف کیا ہے اور ظاہر ہے، کہ یہ اختلاف یہی معنی رکھتا ہے کہ وہ مختلف فیہ معاملات میں اپنی راے کو صحیح او رامام صاحب کی راے کو غلط سمجھتے تھے۔لیکن کیا اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ یہ دونوں حضرات امام ابوحنیفہؒ کے مقابلے میں اپنے آپ کو افضل سمجھتے تھے؟ (ترجمان القرآن، جون۱۹۴۶ء)