اسلامی تاریخ کا تعین چوں کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں اتفاق رائے سےسن ِ ہجری مقرر ہوا۔ اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اس سے پہلے کے واقعات کا تعین کس طرح کیاجائے گا؟ اور بعض واقعات کے بارےمیں دن اور تاریخ جو بیان کی جاتی ہے وہ کس طرح صحیح تسلیم کی جائے گی؟ مثلاً کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یوم عاشورا میں فرعون سے نجات ملی تھی یعنی ۱۰؍محرم کو۔ جب تاریخ کا تعین ہی حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہوا تو پھر کس بنیاد پر یہ معلوم ہوا کہ یہ واقعہ ۱۰؍محرم کو ہواتھا؟
جواب
حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانے میں سن ہجری کے تعین کامطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے پہلے عرب میں کوئی سن اور تاریخ رائج نہ تھی۔ عرب میں اسلام سے پہلے بھی متعدد شمسی وقمری سن رائج تھے۔ سن عیسوی بھی دنیا کے ایک بڑے حصے میں بہت پہلے ہی سے رائج تھا۔ سوال یہ تھا کہ اسلامی تقویم کے لیے مسلمان انھیں سنین میں سے کوئی سن اپنے لیےمنتخب کرلیں یااپناالگ سن رائج کریں اور اگر رائج کریں تو حضورﷺ کی ولادت باسعادت سے رائج کریں یا وفات یا ہجرت سے۔ اتفاق اس پر ہوا کہ ہجرت نبوی سے سن رائج کیا جائے۔مہینے وہی رہے جو پہلے سے عرب میں رائج تھے ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ۔
سن ہجری کے پہلے کے واقعات کو سن ہجری سے بیان نہیں کیا جاسکتا بلکہ دوسرے سنین یا دوسرے بڑے واقعات سے تعیین کی جاتی ہے۔ مثال کے طوراگر ہم یہ جاننا چاہیں کہ معراج کس سن میں ہوئی تھی تو سن ہجری سے بیان نہیں کیاجائے گا بلکہ حضورؐ کی بعثت ونبوت سے اس کو ظاہر کیاجائے گا یا قبل ہجرت کہہ کر بیان کیا جائے گا۔ مثلاً ہم کہیں گے کہ ہجرت سے دوسال پہلے معراج ہوئی یا نبوت ملنے کے گیارہ سال بعد یہ واقعہ پیش آیا۔ابرہہ نے ہاتھیوں کے لشکرکے ساتھ کعبہ پرجو حملہ کرنا چاہاتھا اس کے لیے عام الفیل کی اصطلاح بن گئی تھی اور بہت سے واقعات عام الفیل سے بیان کیے جاتے تھے۔ چنانچہ اصحاب السیر حضورؐ کی ولادت کو بھی عام الفیل کے حساب سے بیان کرتے ہیں ۔ یہ بھی آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ عیسائی مورخین حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے کے واقعات کو قبل مسیح کہہ کر بیان کرتے ہیں ۔
جو واقعات بہت قدیم ہیں ان کےلیے کوئی سن بیان نہیں کیاجاتا۔۱۰؍محرم کے جو غیرمعمولی واقعات بیان کیے جاتے ہیں ۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام او ربنی اسرائیل کا فرعون سے نجات پانا تو اس کے لیے کوئی سن متعین نہیں کیاجاتا۔ تاریخ اس لیے بیان کی جاتی ہے کہ مہینے اوران کے ایام پہلے سے رائج اور معلوم تھے۔ محرم پہلے بھی آتا تھا اور یکم سے لے کر۲۹ یا ۳۰ تک کی تاریخیں معلوم تھیں ۔ باقی رہی یہ بات کہ صحیح طورپریہ کیسے معلوم ہواکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نجات ۱۰؍محرم کوملی تھی تو اس کے دو ذرائع ہیں ۔ ایک یہ کہ عرب کے یہودیوں میں نسلاً بعد نسلٍ یہ بات مشہور چلی آرہی تھی اور اس دن وہ روزے بھی رکھتے تھے۔ دوسرا اس سے بڑا اور یقینی ذریعہ نبی ﷺ کی تصدیق ہے۔ صحیح احادیث سے یہ بات معلوم ہے کہ جب نبی ﷺ کو یہ بات معلوم ہوئی کہ یہودی یوم عاشورا کا روزہ اس لیے رکھتے ہیں کہ اس دن اللہ نے ان کو فرعون سے نجات بخشی تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن اللہ کا شکرادا کرنے کے لیے روزہ رکھاتھا تو حضورؐ نے اس کی تصدیق فرمائی اور مسلمانوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (جولائی۱۹۶۵ءج۳۵ش۱)