میرابھانجا ایک بینک کی ملازمت کررہاہے۔جب اس کو معلوم ہوا کہ بینک کی ملازمت ازروئے شرع صحیح نہیں ہے تو وہ کوشاں ہے کہ کئی برس کی ملازمت ترک کرکے کسی ایسی جگہ ملازم ہوجائے جہاں سودی کاروبار کی گندگی نہ ہو۔ بینک کے قواعد کے تحت اس کو ۳۷ہزار روپے بطورقرض سود پر مل سکتے ہیں اورآسان قسطوں میں اس کو ادا کیاجاسکتا ہے۔ اگر رقم لے کر اس سے مکانات بنوالیے جائیں اور ان کے کرایہ کی رقم سے بینک کا قرض ادا کردیا جائے تو کیا بعد ادائیگی قرض کرایہ کی رقم اس کے لیے ازروئے شرع جائز ہوگی؟
جواب
آپ نے جو سوال کیا ہے دراصل اس کے دوجز ہیں۔ ایک یہ کہ بینک سے سودی قرض حاصل کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ دوسرا یہ کہ اگر کوئی شخص سودی قرض لے کر اس سے مکانات بنوالے توان کا کرایہ اس کے لیے جائز ہوگا یا نہیں ؟
پہلے جزکا جواب یہ ہے کہ میرے نزدیک سودی قرض مجبوری کی حالت میں تولیاجاسکتاہے، لیکن عام حالات میں جائز نہیں ہے۔
دوسرے جزکا جواب یہ ہے کہ سودی قرض لے کر بنوائے ہوئے مکانات کا کرایہ جائز ہے۔کیوں کہ قرض لیے ہوئے روپے حرام نہیں بلکہ ان پر سوددینا ناجائزہے۔ قرض لی ہوئی رقم سے جو مکانات بنوائے جائیں گےوہ جائز رقم سے بنے ہوئے مکانات ہوں گے۔ (اکتوبر۱۹۷۳ء،ج۵۱،ش۴)