جواب
آیت وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّـبِيّٖنَ مِيْثَاقَہُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُّوْحٍ … (الاحزاب:۷)
’’اور (اے نبیؐ) یاد رکھو اس عہد و پیمان کو جو ہم نے سب پیغمبروں سے لیا ہے، تم سے بھی اور نوح ؑ سے بھی۔‘‘
سے قادیانی حضرات جو استدلال کرتے ہیں ،وہ اگر مبنی براخلاص ہے تو ان کی جہالت پر استدلال کرتا ہے، اور اگر قصداًدھوکا دینے کی نیت سے ہے تو یہ ان کی ضلالت پر دال ہے۔ وہ ایک مضمون تو سورہ آل عمران کی آیت وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبیّٖنسے لیتے ہیں جس میں انبیا اور ان کی اُمتوں سے کسی آنے والے نبی کی پیروی کا عہد لیا گیا ہے،اور دوسرا مضمون سورۂ الاحزاب کی مذکورہ بالا آیت سے لیتے ہیں جس میں دوسرے انبیا کے ساتھ نبیؐ سے بھی ایک عہدلیے جانے کا ذکر ہے۔ پھر دونوں کو جوڑ کر اس سے یہ تیسرا مضمون خود بنا ڈالتے ہیں کہ نبیؐ سے بھی کسی آنے والے نبی پر ایمان لانے اور اس کی تائید ونصرت کرنے کا عہد لیا گیا تھا۔ حالاں کہ جس آیت میں آنے والے نبی پر ایمان لانے کے میثاق کا ذکر ہے،اس میں اﷲ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ عہد ہم نے محمدؐ سے بھی لیا ہے،اورجس آیت میں محمدؐ سے ایک عہد لیے جانے کا ذکر ہے،اس میں کوئی تصریح اس امر کی نہیں ہے کہ یہ عہد کسی آنے والے نبی کی پیروی کا تھا۔اب سوال یہ ہے کہ آخر ان دو مختلف مضمونوں کو جوڑ کر ایک تیسرا مضمون جو قرآن میں کہیں نہ تھا، کس دلیل سے پیدا کرلیاگیا؟
اس کے لیے اگر ہوسکتی تھیں تو تین ہی دلیلیں ہوسکتی تھیں :
یا تو نبیﷺ نے اس آیت کے نزول کے بعد صحابہ کو جمع کرکے اعلان فرمایا ہوتا کہ’’لوگو!اﷲ نے مجھ سے یہ عہد لیا ہے کہ میرے بعد جو نبی آئے،اس پر میں ایمان لائوں اور اس کی تائید ونصرت کروں ،لہٰذا میرے متبع ہونے کی حیثیت سے تم بھی اس کا عہد کرو‘‘— مگر ہم دیکھتے ہیں کہ حدیث کے پورے ذخیرے میں اس مضمون کا کہیں نام ونشان تک نہیں ،بلکہ اُلٹی بکثرت روایات ایسی موجود ہیں جن سے یہ مضمون نکلتا ہے کہ حضورﷺپر سلسلۂ نبوت ختم ہوگیا اور آپؐ کے بعد اب کوئی نبی پیدا ہونے والا نہیں ہے۔ کیا یہ باور کیا جاسکتا ہے نبیؐ سے ایک ایسا اہم میثاق لیا گیا ہوتا اور آپ ؐ نے اسے یوں نظر انداز کردیا ہوتا، اور اُلٹی ایسی باتیں فرمائی ہوتیں جن سے حجت پکڑ کر آپؐ کی اُمت کا سواداعظم خدا کے کسی فرستادہ نبی پر ایمان لانے سے محروم رہ جاتا۔
دوسری دلیل اس مضمون کو پید اکرنے کے لیے یہ ہوسکتی تھی کہ قرآن میں انبیا اور ان کی اُمتوں سے بس ایک ہی میثاق لیے جانے کا ذکر ہوتا،یعنی یہ کہ بعد کے آنے والے نبی پر ایمان لانا۔ اس کے سوا کسی اور میثاق کا پورے قرآن میں کہیں ذکر ہی نہ ہوتا۔ اس صورت میں یہ استدلال کیا جاسکتا تھا کہ سورۂ الاحزاب والی آیتِ میثاق میں بھی لامحالہ یہی میثاق مراد ہوگا —لیکن اس دلیل کے لیے بھی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔قرآن میں ایک نہیں بلکہ متعد د میثاقوں کا ذکر آیا ہے۔ مثلاً سورۂ البقرہ رکوع۱۰ میں بنی اسرائیل سے اﷲ کی بندگی اور والدین سے حسن سلوک اور آپس کی خوں ریزی سے پرہیز وغیرہ کا میثاق لیا جاتا ہے۔سورۂ آل عمران رکوع۱۹ میں تمام اہل کتاب سے اس بات کا میثاق لیا جاتا ہے کہ خدا کی جو کتاب تمھارے حوالے کی گئی ہے،اس کی تعلیمات کو چھپائو گے نہیں بلکہ اس کی عام اشاعت کرو گے۔ سورۂ الاعراف رکوع۲۱میں بنی اسرائیل سے عہد لیا جاتا ہے کہ وہ اﷲ کے نام پر حق کے سوا کوئی بات نہ کہیں گے،اور اﷲ کی دی ہوئی کتاب کو مضبوط ہاتھوں سے تھامیں گے اور اس کی تعلیمات کو یاد رکھیں گے۔سورۂ المائدہ رکوع ۱ میں محمد عربی ﷺ کے پیروئوں کو ایک میثاق یاد دلایا جاتا ہے جو انھوں نے اﷲ سے کیا تھا، اور وہ یہ ہے کہ’’تم اﷲ سے سمع وطاعت کا عہد کرچکے ہو۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ اگر سورہ الاحزاب والی آیت میں میثاق کے مضمون کی تصریح کے بغیر مجردمیثاق کا ذکر آیا تھا تو اس خلا کو ان بہت سے میثاقوں میں سے کسی ایک سے بھرنے کے بجاے بالخصوص سورۂ آل عمران رکوع۹ والے میثاق ہی سے کیوں بھرا جائے؟اس ترجیح کے لیے خود ایک دلیل درکار ہے جو کہیں موجود نہیں ۔ اس کے جواب میں اگر کوئی یہ کہے کہ دونو ں جگہ چوں کہ نبیوں سے میثاق لینے کا ذکر ہے،اس لیے ایک آیت کی تشریح دوسری آیت سے کرلی گئی، تو میں عرض کروں گا کہ دوسرے جتنے میثاق بھی انبیا کی اُمتوں سے لیے گئے ہیں ،وہ براہ راست کسی اُمت سے نہیں لیے گئے بلکہ انبیا کے واسطے ہی سے لیے گئے ہیں ۔ اور آخر قرآن میں بصیرت رکھنے والا کون شخص اس بات سے ناواقف ہے کہ ہر نبی سے کتاب اﷲ کو مضبوط تھا منے اور اس کے احکام کی پیروی کرنے کاعہد لیا گیا ہے؟
تیسری دلیل یہ ہوسکتی تھی کہ سورۂ الاحزاب کا سیاق وسباق یہ بتا رہا ہوتا کہ یہاں میثاق سے مراد آنے والے نبی پر ایمان لانے کا میثاق ہی ہوسکتاہے۔لیکن یہاں معاملہ بالکل ہی برعکس ہے۔سیاق وسباق تو اُلٹا اس بات پر دلالت کررہا ہے کہ یہاں یہ معنی ہو ہی نہیں سکتے۔سورۂ الاحزاب شروع ہی اس فقرے سے ہوتی ہے کہ:’’اے نبی! اﷲ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں سے نہ دبو،اور جو وحی تمھارا رب بھیجتا ہے،اسی کے مطابق عمل کر و اور اﷲ پر بھروسا رکھو۔‘‘ اس کے بعد یہ حکم سنایا جاتا ہے کہ جاہلیت کے زمانے سے متبنّٰی بنانے کا جو طریقہ چلا آرہا ہے،اس کو اور اس سے تعلق رکھنے والے تمام اوہام اور رسموں کو توڑ ڈالو۔اس کے بعد فرمایا جاتا ہے کہ غیر خونی رشتوں میں صرف ایک ہی رشتہ ایسا ہے جو خونی رشتوں سے بھی بڑھ کر حرمت والا ہے،اور وہ ہے نبی اور مومنین کا رشتہ،جس کی بنا پر نبیؐ کی بیویاں ان کی مائوں کی طرح ان پر حرام ہیں ،ورنہ باقی تمام معاملات میں رحمی اور خونی رشتے ہی اﷲ کی کتاب کی رو سے حرمت اور استحقاق وراثت کے لیے اولیٰ وانسب ہیں ۔
یہ احکام بیان فرمانے کے بعد اﷲ تعالیٰ نبی ﷺ کو وہ میثاق یاد دلاتا ہے جو اس نے تمام انبیا سے ہمیشہ لیا ہے اور ان کی طرح آپؐ سے بھی لیا ہے۔ اب ہر معقول آدمی خود ہی دیکھ سکتا ہے کہ اس سلسلۂ کلام میں آخر کس مناسبت سے ایک آنے والے نبی پر ایمان لانے کا میثاق یاد دلایا جاسکتا تھا؟یہاں توا گر یاد دلایا جاسکتا تھا تو وہی میثاق یاد دلایا جاسکتا تھاجو خدا کی کتاب کو مضبوط تھامنے اور اس کے احکام کو یاد رکھنے اور ان پر عمل کرنے اور دنیا پر ان کا اظہار کرنے کے لیے تمام انبیا سے لیا گیا ہے۔ پھر آگے چل کر ہم دیکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نبی ﷺکو صاف صاف حکم دیتا ہے کہ آپ خود اپنے متبنّٰی زیدؓبن حارثہ کی مطلقہ بیوی سے نکاح کرکے جاہلیت کے اس وہم کو توڑ دیں جس کی بنا پر لوگ منہ بولے بیٹے کو بالکل صلبی بیٹے کی طرح سمجھتے تھے۔ اور جب کفار و منافقین اس پر اعتراضات کی بوچھاڑ کرتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ ان کو علی الترتیب تین جواب دیتاہے:
(۱)اوّل تو محمدتم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں کہ اس کی مطلقہ بیوی ان پرحرام ہوتی۔
(۲) اور اگر تم یہ کہتے ہو کہ وہ ان کے لیے حلال تھی بھی تو اس سے نکاح کرناکیا ضروری تھا، ]ہاں [ یہ اس لیے ضروری تھا کہ وہ اﷲ کے رسول ہیں جس کاکام یہی ہے کہ جس چیز کو اﷲ مٹانا چاہتا ہے، اسے خود آگے بڑھ کر مٹاے۔
(۳)اور مزید برآں ان کو ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ وہ محض رسول ہی نہیں ہیں بلکہ خاتم النبیین ہیں ،اگر وہ جاہلیت کی ان رسموں کو مٹا کر نہ جائیں گے تو پھر کوئی ایسا نبی آنے والا بھی نہیں ہے جو انھیں مٹاے۔
اس مضمون لاحق کو اگر کوئی شخص مضمون سابق کے ساتھ ملاکر پڑھے تو وہ چین کے ساتھ یہ کہہ دے گا کہ اس سیاق وسباق میں جو میثاق نبی ﷺ کو یاد دلایا گیا ہے،اس سے مراد اور جو میثاق بھی ہو، بہرحال کسی آنے والے نبی پر ایمان لانے کا میثاق تو ہرگز نہیں ہوسکتا۔
دیکھ لیجیے،آیت زیر بحث سے قادیانیوں کے بیان کردہ معنی لینے کے لیے یہی تین دلیلیں ہوسکتی تھیں ،اور یہاں ان میں سے ہر دلیل ان کے مدعا کے لیے غیر مفید، بلکہ اُلٹی ان کے مدعا کے خلاف ہے۔ اب اگر ان کے پاس کوئی چوتھی دلیل ہو تو وہ ان سے دریافت کیجیے، اور ان تینوں دلیلوں کا جواب بھی ان سے لیجیے۔ ورنہ یہ ماننے کے سوا چارہ نہیں کہ اس آیت سے جو معنی انھوں نے لیے ہیں ، وہ یا تو جہالت کی بِنا پر نکالے ہیں ،یا پھر خدا سے بے خوف ہوکر خلق خدا کو گمراہ کرنے کے لیے نکالے ہیں ۔بہرحال ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر مرزا صاحب نبی تھے تو آخر کیامعاملہ ہے کہ ابھی ان کے صحابہ کا دور بھی ختم نہیں ہوا ہے اور ان کی ساری اُمت اس وقت تابعین اور تبع تابعین پر مشتمل ہے۔پھر بھی حال یہ ہے کہ کتاب اﷲ سے ان کی اُمت میں علی الاعلان ایسے غلط استدلال کیے جاتے ہیں اور پوری اُمت میں ایک آواز بھی اس جہالت یا ناخدا ترسی کے خلاف بلند نہیں ہوتی۔ (ترجما ن القرآن ، جون،جولائی۱۹۵۲ء)