جواب
آیت وَقَالَ اللّٰہُ اِنِّیْ مَعَکُمْ کی تفسیر میں ’’معیت‘‘ کو میں نے’’نصرت‘‘ کے معنی میں لیا ہے اور اس بنا پر یہ سمجھا ہے کہ اس نصرت کے لیے اقامت صلاۃ وایتاے زکاۃ وغیرہ بطورِ شرط کے ارشاد ہوئے ہیں ۔لیکن اگر اِنّی مَعَکُمْ کے معنی یہ لیے جائیں کہ اِنِّی مَعَکُمْ بِالْعِلْمِ وَالْقُدْرَۃِ، فَاَسْمَعُ کَلَامَکُمْ وَاَرٰی اَفْعَالَکُمْ وَاَعْلَمُ ضَمَائِرَکُمْ وَاَقْدِرُ عَلٰی اِیْصَالِ الْجَزَائِ اِلَیْکُمْ۔’’یعنی میں اپنے علم وقدرت کے اعتبار سے تمھارے ساتھ ہوں اور تمھاری گفتگوئیں سنتا ہوں ، تمھارے اعمال کو دیکھتا ہوں ،تمھاری نیتوں کو جانتا ہوں اور تم کو جزا وسزا دینے پر پوری طرح قادر ہوں ۔‘‘ تو اس صورت میں بلاشبہہ یہ فقرہ بجاے خود ایک مکمل فقرہ ہو گا اور اس کے بعد لَئِنْ اَقَمْتُمْ کو اس سے جدا ایک الگ فقرہ قرار دینا درست ہوگا۔ اس معاملے میں چوں کہ دو تفسیروں کی گنجائش ہے اس لیے إنِّی مَعَکُمْ کے بعد وقف جائز ہے، مگر لازم نہیں ہے اور وصل ممنوع نہیں ہے۔
جو لوگ میری اس تفسیر کو’’تفسیر بالراے‘‘کہتے ہیں ، ان کو تفسیر بالرأے کے معنی معلوم نہیں ۔ تفسیر بالرأے کے معنی پچھلے مفسرین سے اختلاف کرنے کے نہیں ہیں ،بلکہ ایسی تفسیر کرنے کے ہیں جو قرآن یاحدیث صحیح کے خلاف پڑتی ہو،جو قواعد لغت کے خلا ف ہو۔
میں نہیں سمجھ سکا کہ آپ نظیر کس چیز کی مانگتے ہیں ۔اگر شرط وجواب شرط کے درمیان تقدیم وتاخیر کی نظیر درکار ہے تو اس کی نظیریں بے شمار ہیں ۔خود قرآن میں ہے:
قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَي اللہِ كَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِيْ مِلَّتِكُمْ ( الاعراف:۸۹)
’’ہم اللّٰہ پرجھوٹ گھڑنے والے ہوں گے اگر تمھاری ملت میں پلٹ آئیں ۔‘‘
اور اگر شرط اور جواب شرط کے درمیان وقف کی نظیرمانگتے ہیں تو میں اس کا قائل کب ہوں کہ اس کی نظیر پیش کروں ۔ میں تو خود کہتا ہوں کہ إنِّی مَعَکُمْ کے بعد وقف اس صورت میں جائز ہے جب کہ اس کو جملۂ مستأ نَفہ مانا جائے۔ لیکن اگر اسے جواب شرط مانا جائے تو وقف جائز نہیں ۔ (ترجمان القرآن، مارچ تا مئی ۱۹۵۱ء)