جواب
سورئہ البقرہ آیت۱۵۴کے جس نوٹ کی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے اس میں ’’مردہ نہ کہو‘‘ کی جو توجیہ میں نے کی ہے اس سے مقصود حیات شہدا و صالحین کے متعلق لوگوں کے اس خیال کی اصلاح ہے کہ وہ زندہ اس معنی میں ہیں کہ ہماری دعائیں سنتے ہیں ، حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ نے انھیں مردہ کہنے سے جس بنا پر روکا ہے اور ان کی حیات کا اثبات کیا ہے وہ کفار و منافقین کی ان باتوں کو رد کرنے کے لیے ہے جو وہ لَوْکَانُوْا عِنْدَنَا مَامَاتُوْا وَمَا قُتِلُوْا({ FR 2233 }) (آل عمران:۱۵۶)اور لَوْ اَطَاعُوْنَا مَاقُتِلُوْا ({ FR 2234 }) (آل عمران: ۱۵۶)کہہ کہہ کر اہل ایمان میں بزدلی پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ورنہ خود قرآن ہی میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ شہادت جسمانی موت تو ضرور ہے وَلَئِنْ مُّتُّمْ أَوْ قُتِلْتُمْ لإِلَی اللّٰہ تُحْشَرُوْنَ({ FR 2235 }) ( آل عمران:۱۵۸)مگر حقیقت میں یہ حیات جاوداں ہے بَلْ أَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنََ({ FR 2236 }) (آل عمران:۱۶۹)اسی معنی میں میں نے بھی انھیں مردہ کہنے کو حقیقت واقعہ کے خلاف قرار دیا ہے، کیونکہ ان کے لیے حیاتِ برزخ اور حیاتِ اخروی ثابت ہے۔
سورئہ یٰسٓ کے حاشیہ۲۳کو اگر آپ سورئہ البقرہ کے حاشیہ ۱۵۵ اور سورئہ آلِ عمران کی آیت۱۵۸ کے ساتھ پڑھیں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ شہدا کی حیات اصل میں برزخی حیات ہی ہے، ورنہ جسم و روح کی علیحدگی کے اعتبار سے جس طرح دوسرے لوگوں پر موت وارد ہوتی ہے اسی طرح شہدا پر بھی وارد ہوتی ہے۔ اسی لیے ان کی میراث تقسیم ہوتی ہے اور ان کی بیوہ کا نکاح ثانی جائز ہے۔ لیکن ان کو مردہ کہنے سے جس بنا پر منع کیا گیا ہے وہ اوپر میں بیان کر چکا ہوں ۔ (ترجمان القرآن، جنوری۱۹۷۷ء)