سورۃ الزخرف، آیت ۶۱ وَاتَّبِعُوْنِ کا قائل

’’سورۃ الزخرف آیت۶۱ کسی طرح بھی اللّٰہ تعالیٰ کا قول نہیں ہے، اس لیے کہ اتّباع کا لفظ انبیا؊ کی پیروی ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ آیت کا صحیح ترجمہ ہوگا :’’اے نبی ان سے کہو وہ (حضرت عیسیٰؑ) تو قیامت کی نشانی ہے، پس اس میں شک نہ کرو اور میری اتباع کرو، یہ سیدھا راستہ ہے۔‘‘
جواب

اس آیت کی تفسیر میں مترجمین و مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ کسی نے پوری آیت کو اللّٰہ تعالیٰ کا قول قرار دیا ہے اور کسی نے ’’اس میں شک نہ کرو‘‘ تک اللّٰہ تعالیٰ کا قول اور ’’میرا اتباع کرو‘‘ سے آخر تک رسول اللّٰہ ﷺ کا قول قرار دیا ہے۔ پہلے مختلف تراجم ملاحظہ فرمائیے:
تفہیم القرآن: ’’اور وہ دراصل قیامت کی ایک نشانی ہے، پس تم اس میں شک نہ کرو اور میری بات مان لو، یہی سیدھا راستہ ہے۔‘‘ (اس کی مفصل تشریح تفہیم القرآن،ج۴، صفحات ۵۴۷-۵۴۸ میں کی گئی ہے)
شاہ ولی اللّٰہ صاحبؒ: وہر آئینہ عیسی نشانہ است قیامت را، پس شبہ مکنید درقیامت۔ وبگویا محمد (ﷺ) پیروی من کنید، ایں است راہ راست۔‘‘
شاہ رفیع الدین صاحبؒ: ’’اور تحقیق وہ البتہ علامت قیامت کی ہے، پس شک مت لائو ساتھ اس کے اور پیروی کرو میری، یہ ایک سیدھی راہ ہے۔‘‘
شاہ عبدالقادر صاحبؒ: ’’اور وہ نشان ہے اس گھڑی کا، سو اس میں دھوکا نہ کرو اور میرا کہا مانو، یہ ایک سیدھی راہ ہے۔‘‘
مولانا اشرف علی صاحبؒ: ’’اور وہ (یعنی عیسیٰؑ) قیامت کے یقین کا ذریعہ ہیں ، تو تم لوگ اس (کی صحت) میں شک مت کرو اور تم لوگ میرا اتباع کرو، یہ سیدھا راستہ ہے۔‘‘
ان میں صرف شاہ ولی اللّٰہ صاحبؒ نے تصریح کی ہے کہ ’’پیروی من کنید این است راہ راست‘‘ رسول اللّٰہ ﷺ کا قول ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے آپؐ نے فرمایا۔ اس کے بعد اب مفسرین کے اقوال ملاحظہ ہوں ۔
ابن جریر کہتے ہیں وَاتَّبِعُوْنِ اللہ تعالیٰ کا قول ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ میری اطاعت کرو، جس بات کا میں حکم دوں اس پر عمل کرو اور جس چیز سے میں روک دوں اس سے رک جائو۔ یہی بات زمخشری نے کہی ہے کہ وَاتَّبِعُوْنِ کا مطلب ہے میری پیروی کرو، یعنی میری ہدایت اور میری شرع اور میرے رسول کی پیروی کرو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ کو یہ بات کہنے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہی تفسیر امام رازیؒ، قاضی بیضاویؒ اور علامہ آلوسیؒ نے کی ہے۔ ان سب نے وَاتَّبِعُوْنِ کے پہلے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ میری ہدایت اور میری شرع اور میرے رسول کی پیروی کرو۔ اور دوسرے معنی ان الفاظ کے ساتھ بیان کیے ہیں : ’’اور کہا گیا ہے‘‘ کہ بات کہنے کا رسول اللّٰہ ﷺ کو حکم دیا گیا تھا۔ لہٰذا یہ دعویٰ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اتباع کا لفظ انبیا ؊ کی پیروی ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہ کسی طرح بھی اللّٰہ تعالیٰ کا قول نہیں ہے۔
(ترجمان القرآن، دسمبر۱۹۷۶ء)