تفسیری اِشکالات
(۱)تفہیم القرآن میں آپ نے سیلِ عَرِم کا جو زمانہ۴۵۰ء متعین فرمایا ہے اس کے بارے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ معلومات کہاں سے حاصل ہوئیں (یعنی ان کا ماخذ کیا ہے؟)
(۲)ارض القرآن کی اشاعت سے پہلے بھی۴۵۰ء والی روایت بعض کتابوں میں ملتی ہے اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ارض القرآن کی اشاعت کے بعد یہ بات ثابت ہوئی کہ سیل عرم۴۵۰ء میں آیا۔ نکلسن کی تاریخ ادب العرب میں بھی سیل عرم کا زمانہ۴۴۷ء یا۴۵۰ء لکھا ہے، لیکن یہ روایت بوجوہ محل نظر ہے۔
(۳) قرآن حکیم کی مختلف تفاسیر (بشمول تفہیم القرآن) کا بغور مطالعہ کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس سیل عرم کا ذکر قرآن مجید میں ہے اس کا تعلق سبا کے طبقۂ ثانیہ سے ہے نہ کہ سباے حمیر سے، جن کو قوم تُبَّع کہا گیا ہے۔ اسی طرح ’’تفرُّقِ سبا‘‘ کا واقعہ ولادت مسیح سے پہلے ہوا نہ کہ بعد میں ۔
(۴) سیل عرم کے نتیجے میں سدّ مارب ٹوٹ گیا اور سبا کے باغ اجڑ گئے۔ اس کے معاًبعد (تجارتی راستوں پر دوسری اقوام کے غلبے کی وجہ سے) ان کے قبائل کا شیرازہ بکھر گیا۔
(۵)اگر سیل عرم کا زمانہ ۴۵۰ء تسلیم کیا جائے تو ’’تفرق سبا‘‘ بھی اس کے بعد ہونا چاہیے۔ لیکن عرب (اور بالخصوص مدینہ منورہ) کی مختلف تواریخ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سبا کے مختلف قبائل ۴۵۰ء سے کہیں پہلے سارے عرب میں منتشر ہوگئے تھے۔ مشہور تاریخی واقعہ ہے کہ ان کا قبیلہ از دیا اسد جو یثرب میں آکر آباد ہوگیا تھا اس پر یہودی سردار فیطون (یا فطیون) نے بے پناہ مظالم ڈھاے۔ غسانی سردار ابوجبیلہ نے ان مظالم کا انتقام لیا۔ اس واقعہ کے بعد مشہور تبع ابوکرب اسعد یا حسان بن کلیکرب کا ورود یثرب میں ہوا۔ (ابوکرب اسعد کا زمانۂ حکومت۴۰۰ء تا۴۲۵ء ہے اور حسان کا۴۲۵ء تا۴۵۵ء) عرب مؤرخین نے تبابعہ کے حالات غلط یا صحیح تفصیل کے ساتھ لکھے ہیں لیکن کسی نے یہ نہیں لکھا کہ سیل عرم تبابعہ کے عہد میں آیا۔ اگر سیل عرم کا زمانہ ۴۵۰ء مانا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ قبائل سبا کا شیرازہ۴۵۰ء کے بعد منتشر ہوا۔ حالانکہ تاریخ سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ سبا کے تجارتی راستوں پر بہت پہلے دوسروں کا غلبہ ہوگیا تھا اور یہی بات ان کے انتشار کا باعث ہوئی تھی۔ یہ بالکل دوسری بات ہے کہ ان منتشر قبائل میں سے بعض نے پھر عروج حاصل کرلیا۔ یہ بھی درست ہے کہ سیل عرم کا ’’تفرق قبائل‘‘ سے براہِ راست تعلق نہیں ہے۔ لیکن سورئہ سبا میں جس سیل عرم کا ذکر ہے اس کے سیاق و سباق سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا تعلق سبا کے طبقہ ثانیہ سے ہے جس کا دورِ عروج۱۱۵ ق م میں ختم ہوگیا۔ سدمارب بلاشبہہ اس کے بعد بھی کام دیتا رہا (اس کی مرمت کس نے کرائی، تاریخ اس کے بارے میں خاموش ہے) لیکن وہ باغ جنھیں ’’جنتین‘‘ کہا گیا ہے پھر معرض وجود میں نہ آسکے۔ سد مارب تو سباے حمیر کے عہد میں اور ان کے بعد بھی کام دیتا رہا۔ ۴۵۳ء میں یہ ایک بار پھر ٹوٹا تو ابرہہ نے اس کی مرمت کروائی۔ آخری بار یہ کب ٹوٹا، اس کے متعلق بھی مختلف روایتیں ہیں ۔
(۶) تمام مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سبا کے طبقہ اولیٰ(اور ثانیہ) کا مسکن شہر ’’مارب‘‘ (سبا) تھا اور ’’سیل عرم‘‘ کا تعلق اسی بند سے ہے جو مارب کے متصل تعمیر کیا گیا تھا۔ سباے حمیر کا مسکن مارب نہیں تھا۔ اس لیے قرآن کریم کے بیان کردہ ’’سیل عرم‘‘ کا تعلق یقیناً سباے حِمیَر کے زمانے سے نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ حمیر نے اپنی حکومت کو مارب تک وسعت دے لی تھی لیکن مارب کو حمیر کا مسکن نہیں کہا جا سکتا اور قرآن کہتا ہے کہ ہم نے سبا کے مسکن میں بند توڑ سیلاب بھیجا۔ (مسکن سے مراد مرکزی شہر یا سبا کی قوت و شوکت کا مرکز ہے)
جواب
یمن کی جو تاریخ اس علاقے میں دستیاب ہونے والے کتبات کی مدد سے مرتب ہوئی ہے اس میں بہت سی سابق معلومات پر نظرثانی کی گئی ہے۔ قدیم ترین کتبہ جو دستیاب ہوا ہے اس کی تاریخ ۶۶۰ ق م کے مطابق پڑتی ہے۔ اس میں ذکر کیا گیا ہے کہ اس زمانے میں سدّمارب تعمیر ہو رہا تھا۔ پھر ایک کتبہ شرحبیل بن کلیئر نامی بادشاہ کا ملا ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ فلاں تاریخ (مطابق۴۴۹ء) کو سدّمارب ٹوٹ گیا، مگر اس کی مرمت کر لی گئی۔ پھر فلاں تاریخ (مطابق ۴۵۰ء یا۴۵۱ء) کو یہ سد بری طرح ٹوٹا جس سے بہت بڑی تباہی آئی اور کثیر آبادی دور دور تک منتشر ہوگئی۔ بعد میں بادشاہ نے قبائل حمیر و حضر موت سے مدد لے کر اس کی مرمت کرائی۔ اس کتبے کی تاریخ ۴۶۵ عیسوی کے مطابق پڑتی ہے۔
یہ کتبہ پہلا تاریخی وثیقہ ہے جس سے سدمارب کے ٹوٹنے اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلنے اور کثیر آبادی کے منتشر ہو جانے کا ثبوت ملتا ہے۔
عرب مؤرخین کا بیان ہے کہ سدمارب کی تباہی کے باعث جو قبائل شمالی اور وسطی عرب میں پھیل گئے وہ آلِ جَفنہ (غَسَّان، اَوس اور خَزرج) لخم، تنوخ، طے اور کندہ وغیرہ تھے۔
حمزہ اصفہانی نے تاریخ سِنِی ملوک الارض و الانبیاء میں بیان کیا ہے کہ غسانیوں کے سردار جفنہ بن عمرو مزیقیا کو رومی قیصر نسطورس کے زمانے میں شامی عربوں کا فرماں روا بنایا گیا۔ اس قیصر کا اصل نام (Anastasius) تھا اور اس کا زمانۂ حکومت ۴۹۱ء تا۵۱۸ء تھا۔ یہ بات بھی اس کی تائید کرتی ہے کہ غسانیوں کا وطن سے نکلنا پانچویں صدی عیسوی کے وسط کا زمانہ ہے۔
اسی طرح یمن سے نکلنے والے ایک اور قبیلے کی حکومت حِیَرہ میں ساسانیوں کے ماتحت قائم ہوئی اور اس کا زمانہ بھی پانچویں صدی ہی کا ہے۔
اس مسئلے پر عربی زبان میں عراق کے ڈاکٹر جواد علی کی کتاب تاریخ العرب قبل الاسلام نہایت مستند کتابوں میں سے ہے۔ (ترجمان القرآن، جنوری ۱۹۷۶ء)