شفاعت کا صحیح تصور

براہِ کرم آپ بیان فرمائیں کہ اہل سنت کا عقیدہ شفاعت کے بارے میں کیا ہے؟ نبی ﷺ اپنی اُمت کی شفاعت کس حیثیت سے کریں گے،نیز آیا وہ ساری اُمت کی طرف سے شفیع ہوں گے؟
جواب

اسلامی عقیدۂ شفاعت قرآن و حدیث کی رُو سے یہ ہے کہ قیامت کے روز اﷲ تعالیٰ کی عدالت میں شفاعت صرف وہ کرسکے گا جس کو اﷲ اجازت دے، اور صرف اسی شخص کے حق میں کرسکے گا جس کے لیے اﷲ اجازت دے۔ ملاحظہ ہو يَوْمَىِٕذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَرَضِيَ لَہٗ قَوْلًا (طٰہٰ:۱۰۹) ’’اس روز (کسی کی) سفارش کچھ فائدہ نہ دے گی مگر اس شخص کی جسے خدا اجازت دے اور اس کی بات کو پسند فرمائے۔‘‘ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِـاِذْنِہٖ ۭ(البقرہ:۲۵۵ ) ’’کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کر سکے۔‘‘ اس قاعدے کے تحت نبی ﷺآخرت میں یقیناً شفاعت فرمائیں گے،مگر یہ شفاعت اﷲ کے اذن سے ہوگی اور ان اہل ایمان کے حق میں ہوگی جو اپنی حدوسع تک نیک عمل کرنے کی کوشش کے باوجود کچھ گناہوں میں آلودہ ہوگئے ہوں ۔ جان بوجھ کر خیانتیں اور بدکاریاں کرنے والے،اور کبھی خدا سے نہ ڈرنے والے لوگ حضور ﷺ کی شفاعت کے مستحق نہیں ہیں ۔چنانچہ حدیث میں حضو رﷺکا ایک طویل خطبہ مروی ہے جس میں آپ جرم خیانت کی شدت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قیامت کے روز یہ خائن لوگ اس حالت میں آئیں گے کہ ان کی گردن پر ان کا خیانت سے حاصل کیا ہوا مال لدا ہوگا اور وہ مجھے پکاریں گے کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي ’’یا رسول اﷲ ؐ میری مدد فرمایئے۔‘‘مگر میں جواب دوں گا کہلَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ({ FR 1526 })’’میں تیرے لیے کچھ نہیں کرسکتا،میں نے تجھ تک خدا کا پیغام پہنچا دیا تھا۔‘‘
(ترجمان القرآن ، نومبر۱۹۵۰ء)