شخصی مخالفتیں
ترجمان القرآن،دسمبر ۱۹۵۵ میں جناب نے حضرت صدیقؓ کی بندش کفالت مسطح کو غیر اسلامی حمیت سے تعبیر فرمایا ہے۔کیا صدیقؓ کا نبوت سے صرف بیٹی ہی کا تعلق تھا؟ بالفرض اگر حضرت کے کسی دوسرے حرم پر یہ بہتان ہوتا تو کیا حضرت صدیقؓ کو غیرت نہ آتی؟ کیا وہاں اَلْحُبُّ لِلّٰہ وَالْبُغْضُ فِی اللّٰہِ کا جذبہ کارفرما نہ تھا؟ ولایَاتِلِ اُولُوا الْفَضْلِ سے استدلال صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ کیوں کہ یہاں صرف کفالت کا کھولنا نہایت نرم لہجے میں مقصود تھا۔ چنانچہ لفظ اُولْوا الْفَضْلِ وَالسَّعَۃِ اور پھر اَلا تُحِبُّون اَن یَّغْفِرَ اللّٰہ لَکُمْ (النور:۲۲) سے ان کے پاکیزہ جذبات سے معافی کی اپیل ہے۔اس میں عتاب کی بو بھی نہیں ۔ اس کو وعید تصور کرنا ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔علاوہ ازیں یہاں کفالت کی طرف تعرض کیا گیا ہے۔بندش کفالت کے اصل محرکات کو نہیں چھیڑا گیا ،جس کو آپ نے غیر اسلامی حمیت سے تعبیر فرمایا ہے۔اگر یہ محرکات غیر اسلامی ہوتے تو اَنْ یُّوْتُوا اُولِی الْقُرْبٰی کے بجاے انھی محرکات کا آپریشن ہوتا، واللّٰہ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ۔ منبع فساد کو چھوڑ کر شاخوں کا انسداد قرآن کی حکیمانہ شان سے بعید ہے۔کفالت تو ان الفاظ سے کھل گئی، لیکن یہ منبع فساد غیر اسلامی حمیت تو ان کے دل میں ویسے ہی مستحکم رہی۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کے متعلق اسی ترجمان [دسمبر ۱۹۵۵ئ]میں جناب نے تحریر فرمایا ہے کہ غالباًیہی شخصی عظمت کا تخیل تھا جس نے اضطراری طور پر حضرت عمرؓ کو تھوڑی دیر کے لیے مغلوب کردیا۔ کیا نبی کی شخصیت اور اس کی عظمت کا تخیل اسلام میں ممنوع ہے؟ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ({ FR 1115 }) الحدیث کا کیا معنی؟ باقی رہا قانونِ ربانی کے مقابلے میں نبوت پرستی یا شخصیت پرستی تو محبوب دو عالم ﷺ کی زندگی میں تو عمرؓ شخصیت پرست نہ تھے۔ بعد از انتقال یہ شخصیت پرستی کہاں سے ان کے دل میں گھس گئی؟ اساریٰ بدر،صلح حدیبیہ، مسئلہ حجاب،رئیس المنافقین کا جنازہ وغیرہ لاتعداد واقعات موجود ہیں ۔صحابہ کرامؓ اور خلفاے راشدین مہدیین کے متعلق ہمیں کس حد تک سوء ظن جائز({ FR 1116 }) ہے؟ کیا ان حضرات کے افعال کی ان توجیہات کے علاوہ اور توجیہ ناممکن تھی؟ اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لاَ تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ({ FR 1117 }) اور أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ فَبِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ({ FR 1118 }) کا کیا مقصد ہوگا؟
جواب
آپ کا یہ اعتراض دراصل اعتراض نہیں ہے بلکہ صریح بہتان ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات بھی آپ نے میری اصل تحریر پڑھے بغیر محض سنی سنائی تہمتوں پر یقین کرکے اپنے اعتراض نامے میں درج کردی۔ حضرت صدیق ؓ کی بندش کفالت مسطح کا قصہ ربیع الثانی ۱۹۵۷ھ کے ترجمان میں ،جس کا آپ حوالہ دے رہے ہیں ،سرے سے درج ہی نہیں ہے۔اس کا ذکر جمادی الاولیٰ ۱۳۵۷ھ کے ترجمان میں آیا ہے، اور اس کے اندر میں نے کہیں اشارتاً وکنایتاً بھی یہ بات نہیں لکھی ہے کہ حضرت صدیق ؓ کا یہ فعل غیر اسلامی حمیت پر مبنی تھا۔آپ مذکورہ بالا رسالے میں صفحہ ۳۰۷ کی پوری عبارت پڑھ کر بتائیں کہ یہ بات کہاں لکھی گئی ہے؟ پھر اس میں یہ کہاں لکھا گیا ہے کہ اس فعل پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی عتاب ہوا اور وعید فرمائی گئی؟
اسی اعتراض کے سلسلے میں آپ [نومبر ۱۹۵۵ئ] کے ترجمان کا حوالہ دے کر ایک اور عبارت کا ذکر فرماتے ہیں جو حضرت عمرؓ سے متعلق ہے، مگر ربیع الاوّل کا ترجمان اس قسم کے ہر لفظ سے خالی ہے۔براہِ کرم آپ پھر پڑھ کر بتایے کہ یہ عبارت میری کس تحریر میں آپ کو ملی ہے۔ آپ تو صحابہ کرامؓ کی محبت کا ذکر فرماتے ہیں ، مگر میرا خیال یہ ہے کہ سب سے پہلے آدمی کے دل میں خدا کا خوف ہونا چاہیے۔ ( ترجمان القرآن، مئی۱۹۵۶ء)