جواب
آپ کے عنایت نامے کا جواب افسوس ہے کہ بڑی تاخیر سے دے رہا ہوں ۔اس مہینے شدید مصروفیت رہی، اس لیے خطوط پڑھنے تک کا وقت نہ ملا، جواب دیناتو درکنار۔ امید ہے کہ میری مشکلات کو نگاہ میں رکھ کر اس تاخیر پر درگزر فرمائیں گے۔
آیت اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ پر جس شبہہ کا اظہار محترم سائل نے کیا ہے، وہ دو مفروضوں پر مبنی ہے، اور دونوں ہی خلاف حقیقت ہیں ۔ ان کا پہلا مفروضہ یہ ہے کہ کسی شخص یا گروہ کی تعریف میں جب کوئی بات کہی جائے تو لازماًاسے اس معنی میں لینا چاہیے کہ اس شخص یا اس گروہ میں کبھی کوئی جزوی امر بھی اس کے خلاف نہ پایا جائے۔ حالاں کہ انسانوں کی تعریف جب بھی کی جاتی ہے، ان کے غالب حال کے لحاظ سے کی جاتی ہے، اور کبھی کبھار کوئی چیز اس کے خلاف نظر آئے تو وہ کلی حکم میں قادح نہیں سمجھی جاتی۔ ہم صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم کو دنیا کا سب سے زیادہ اتقٰی اور اصلح گروہ قرار دیتے ہیں ۔ یہ حکم ان کی مجموعی سیرت کے لحاظ سے ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس گروہ میں کبھی بشریت کے تقاضوں سے جزوی کمزوریوں کا سرے سے ظہور ہی نہیں ہوتا تھا۔ آخر اس زمانے میں بھی کسی کو زنا اور کسی کو چوری کی سزا اور کسی کو قذف کی سزا تو دی ہی گئی تھی، اور صحابیت کا شرف ان سزا یافتہ لوگوں کو بھی حاصل تھا ،کیوں کہ ایمان کے بعد جس شخص کو حضور ﷺ کی صحبت میسر ہوئی، وہ بہرحال صحابی ہے، اور ان قصوروں کی بِنا پر بہرحال نہ صفت ایمان ان سے سلب ہوئی تھی نہ صفت صحابیت۔ مگر کیا یہ بات کہ کبھی اس معاشرے میں زنا اور چوری اور قذف کے گناہوں کا صدور بھی ہوگیا تھا،اس مجموعی حکم میں قادح ہوسکتی ہے کہ وہ معاشرہ صلاح وتقویٰ میں اس بلند ترین مرتبے پر پہنچا ہوا تھا جس پر کبھی کوئی انسانی معاشرہ نہیں پہنچا؟ اسی طرح رُحَمَآئُ بَیْنَہُمکی صفت صحابہ کرام ؓ کی مجموعی سیرت اور ان کے غالب حال کے لحاظ سے ہے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ کسی انسانی معاشرے میں آپس کی محبت والفت، باہمی ہم دردی و خیراندیشی، اور ایک دوسرے کے حقوق کالحاظ اور مرتبے کا احترام اس درجے کا نہیں پایا جاتا اور نہ پایا گیا ہے، جیسا صحابہ کرام ؓ کے معاشرے میں نظر آتا ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان کے اندر یہ صفت انتہائی ممکن کمال تک پہنچی ہوئی نظر آتی ہے جس کا کسی انسانی معاشرے کے حق میں تصور کیا جاسکتا ہے۔لیکن انسان جب تک انسان ہیں ،ان کے اندر بہرحال کبھی نہ کبھی اختلافات بھی پیدا ہوسکتے ہیں اور وہ اختلافات لڑائی جھگڑے کی صورت بھی اختیار کرسکتے ہیں ۔ صحابہ کرام ؓ بھی انسان ہی تھے۔عالم بالا سے کوئی فوق البشر مخلوق حضور ﷺ کی صحبت ومعیت کے لیے اُتر کر نہیں آئی تھی ۔ایک دوسرے کے ساتھ رہن سہن،لین دین اور اجتماعی زندگی کے معاملات کرتے ہوئے لامحالہ بتقاضاے بشریت ان میں اختلافات بھی ہوجاتے تھے، اور بعض اوقات یہ اختلافات شدید نوعیت بھی اختیار کرگئے ہیں ۔ لیکن ان جزوی واقعات سے اس کلی حکم میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کہ ان کی امتیازی صفت رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ تھی۔کیوں کہ ان کا غالب حال یہی تھا۔
دوسرا مفروضہ جو ان کے اس شبہہ کے پیچھے کام کررہا ہے،یہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ میں کبھی جو اختلافات رونما ہوئے ہیں ، وہ اس نوعیت کے تھے کہ ان سے رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ کی صفت بالکل ہی سلب ہو گئی تھی۔ حالاں کہ ان اختلافات کی جو تاریخ ہم تک پہنچی تھی، وہ اس بات پر گواہ ہے کہ یہ مقدس انسان جب آپس میں لڑ بھی جاتے تھے تو ان کی اس لڑائی میں بھی رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ ہونے کی ایک انوکھی شان پائی جاتی تھی۔ بے شک وہ جنگ جمل وصفین میں ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوئے ہیں ۔ مگر کیا دنیا کی کسی خانہ جنگی میں آپ فریقین کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ہوئے بھی ایک دوسرے کا وہ احترام ملحوظ رکھتے دیکھتے ہیں جو ان بزرگوں کی لڑائی میں نظر آتا ہے۔وہ نیک نیتی کے ساتھ اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہوئے لڑے تھے۔نفسانی عداوتوں اور اغراض کی خاطر نہیں لڑے تھے۔ انھیں افسوس تھا کہ دوسرا فریق ان کی پوزیشن غلط سمجھ رہا ہے اور خود غلط پوزیشن اختیار کرتے ہوئے بھی اپنی غلطی محسوس نہیں کررہا ہے۔ وہ ایک دوسرے کو فنا کردینے پر تلے ہوئے نہیں تھے بلکہ اپنی دانست میں دوسرے فریق کو راستی پر لانا چاہتے تھے۔ ان میں سے کسی نے کسی کے ایمان سے انکار نہیں کیا، اس کے اسلامی حقوق سے انکار نہیں کیا، بلکہ اس کی فضیلت اور اس کی اسلامی خدمات کا انکار بھی نہیں کیا۔ انھوں نے ایک دوسرے کو ذلیل ورسوا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ لڑنے میں انھوں نے لڑائی کا حق ضرور ادا کیا، مگر لڑ کر گرجانے والے کے لیے وہ سراپا رحم وشفقت تھے،اور گرفتار ہوجانے والے پر مقدمہ چلانا اور اس کو سزا دینایا اس کو ذلیل وخوار کرنا تو درکنار ،قید رکھنا اور کسی درجے میں بھی نشانۂ عتاب بنانا تک انھوں نے گوارا نہ کیا۔
ذرا دیکھیے،عین موقع پر جب کہ جنگ جمل میں دونوں فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہوئی ہیں ، حضرت علیؓ،حضرت زبیرؓ کو پکارتے ہیں اور وہ ان سے ملنے کے لیے نکل آتے ہیں ۔ دونوں میں سے کسی کو بھی دوسرے سے یہ اندیشہ نہیں ہوتا کہ وہ اس پر اچانک حملہ کردے گا۔ صفوں کے درمیان ایک دوسرے سے بغل گیر ہوکر روتے ہیں ۔ دونوں طرف کی فوجیں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی ہیں کہ یہ ایک دوسرے سے لڑنے آئے تھے اور اب گلے مل کر رو رہے ہیں ۔ دونوں تنہائی میں بات کرکے اپنی اپنی فوجوں کی طرف پلٹ جاتے ہیں ۔ حضرت علیؓ کی فوج والے ان سے پوچھتے ہیں کہ امیر المؤمنین! آپ عین لڑائی کے موقع پر ننگے سر ایک شخص سے تنہا ملنے چلے گئے؟جواب میں فرماتے ہیں : جانتے ہو وہ شخص کون تھا؟ وہ صفیہ ،عمۂ رسول اﷲ کا بیٹا تھا۔ میں نے اس کو رسول اﷲ ﷺ کی ایک بات یاد دلائی۔ اس نے کہا: کاش! یہ بات مجھے پہلے یاد آجاتی تو میں آپ کے مقابلے میں لڑنے نہ آتا۔ لوگ اس پر کہتے ہیں الحمد للہ، اے امیر المؤمنین!یہ رسول اﷲؐ کے شہسوار اور حواری ہیں ، ہم کو انھی کا سب سے زیادہ خوف تھا۔ دوسری طرف حضرت زبیرؓ پلٹ کر اپنی فوج میں جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شرک اور اسلام میں جب کبھی کسی لڑائی میں شریک ہوا ہوں ،مجھے اس میں بصیرت حاصل تھی،مگر اس لڑائی میں نہ میری راے میرا ساتھ دیتی ہے نہ بصیرت۔ اور یہ کہہ کر وہ فوج سے نکل جاتے ہیں ۔
اسی طرح حضرت علیؓ اور حضرت طلحہؓ کی بھی دونوں صفوں کے درمیان تنہا ملاقات ہوتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔لڑائی شروع ہوتی ہے تو حضرت علیؓ اپنی فوج میں اعلان کرتے ہیں کہ خبر دار، کسی کا تعاقب کرکے نہ مارنا، کسی زخمی پر ہاتھ نہ اٹھانا، ان کے لشکر کامال تم لے سکتے ہو مگر ان شہدا کے گھروں پر ان کے جو مال ہیں ،وہ ان کے وارثوں کا حق ہے، اور ان کی عورتوں کے لیے عدت ہے۔ایک شخص کہتا ہے کہ جب ان کے لشکر کے مال ہمارے لیے حلال ہیں تو ان کی عورتیں کیوں نہ حلال ہوں ؟حضرت علیؓ بگڑ کر فرماتے ہیں کہ تم میں سے کون اپنی ماں عائشہ ؓکو اپنے حصے میں لینے کے لیے تیار ہے؟ لوگ پکار اٹھتے ہیں :نستغفر ﷲ۔({ FR 1633 }) جنگ کے بعد مقتولوں پر سے حضرت علیؓ کا گزر ہوتا ہے۔ حضرت طلحہؓ کے بیٹے محمد کی لاش پر نظر پڑتی ہے۔ بے اختیار فرماتے ہیں :
رَحِمَکَ اللّٰہُ یَا مُحَمَّدٌ ، لَقَدْ کُنْتَ فِی الْعِبَادَۃِ مُجْتَھِدًا: اٰ نَآئَ اللَّیْلِ قَوَّا مًا، وَ فِی الْحَرُور صَوَّامًا۔({ FR 1629 })
’’خدا کی رحمت ہو تم پر اے محمد!تم بڑے عبادت گزار ،راتوں کو کھڑے رہنے والے اور سخت گرمیوں میں روزے رکھنے والے تھے۔‘‘
حضرت زبیرؓ کا قاتل انعام کی اُمید پر حاضر ہوتا ہے تو اس کو دوزخ کی بشارت دیتے ہیں ۔ حضرت عائشہؓ کے ہودے کے پاس پہنچتے ہیں تو اس سے زیادہ کچھ نہیں کہتے کہ ’’اے ہودے والی!اﷲ نے آپ کو گھرمیں بیٹھنے کا حکم دیا تھا اور آپ لڑنے نکل آئیں ۔‘‘ پھر بڑے احترام کے ساتھ ان کو مدینہ روانہ کردیتے ہیں ، اور وہ اس حسن سلوک پر ان کو دعا دیتی ہیں کہ جَزَی اللّٰہُ ابْنَ اَبیِ طَالِبِ الْجَنَّۃَ۔({ FR 1630 }) حضرت طلحہؓ کے بیٹے موسیٰ حضرت علیؓ سے ملنے آتے ہیں تو آپ انھیں بٹھا کر فرماتے ہیں :مجھے اُمید ہے کہ میں اور تمہارے باپ ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ
وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰي سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِيْنَ ( الحجر:۴۷)
’’ہم ان کے دلوں سے باہمی کدورت نکال دیں گے اور وہ جنت میں بھائی بھائی کی حیثیت سے آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے۔‘‘
ایک شخص پوچھتا ہے آپ کے پاس یہ کون آیا تھا؟فرماتے ہیں : یہ میرا بھتیجا تھا۔وہ عرض کرتا ہے کہ اگر یہ آپ کا اب بھی بھتیجا ہے تو ہم تو پھر بدبخت ہی ہوئے۔اس پر ناراض ہوکر حضرت علیؓ فرماتے ہیں :
وَیْحَکَ، اِنَّ اللّٰہ قَدْ اِطَّلَعَ عَلٰی اَھْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ۔({ FR 1631 })
دیکھیے،یہ شان تھی ان لوگوں کی آپس کی لڑائی کی۔وہ تلوار بھی ایک دوسرے پر اٹھا کر رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ ہی رہتے تھے۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی قدر،عزت، محبت،اسلامی حقوق کی مراعات،اس شدید خانہ جنگی کی حالت میں بھی جوں کی توں برقرار رہی۔اس میں یک سر مو فرق نہ آیا۔بعد کے لوگ کسی کے حامی بن کر ان میں سے کسی کو گالیاں دیں تو یہ ان کی اپنی بدتمیزی ہے ،مگر وہ لوگ آپس کی عداوت میں نہیں لڑے تھے اور لڑ کر بھی ایک دوسرے کے دشمن نہ ہوئے تھے۔
(ترجمان القرآن،ستمبر ۹۵۷اء)