جواب
خلفاے راشدین کی حکومت کے نظام اور آج کل کے صدارتی نظام میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ان دونوں کو ایک چیز صرف وہی لوگ قرار دے سکتے ہیں جو اسلام کی تاریخ سے بالکل ناواقف ہیں ۔ میں نے اس فرق پر مفصل بحث اپنی کتاب ’’اسلامی ریاست‘‘ میں صفحہ۳۳۱-۳۳۳ پر کی ہے۔ اسے ملاحظہ فرما لیں ۔ اس سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ جس چیز کو خلافت کے نظام میں ’’ویٹو‘‘ کے اختیارات سے تعبیر کیا جارہا ہے،وہ موجودہ زمانے کی دستوری اصطلاح سے بالکل مختلف چیز تھی۔حضرت ابو بکرؓ کے صرف دو فیصلے ہیں جن کو اس معاملے میں بناے استدلال بنایا جاتا ہے۔ ایک جیش اُسامہ کا معاملہ۔ دوسرے مرتدین کے خلاف جہاد کا مسئلہ۔ ان دونوں معاملات میں حضرت ابو بکرؓ نے محض اپنی ذاتی راے پر فیصلہ نہیں کر دیا تھا، بلکہ اپنی راے کے حق میں کتاب وسنت سے استدلال کیا تھا۔ جیش اُسامہ کے معاملے میں ان کا استدلال یہ تھا کہ جس کام کا فیصلہ نبیؐ اپنے عہد میں کرچکے تھے، اسے حضور ﷺ کا خلیفہ ہونے کی حیثیت سے انجام دینا میرا فرض ہے۔ میں اسے بدل دینے کے اختیارات نہیں رکھتا۔ مرتد ین کے معاملے میں ان کا استدلال یہ تھا کہ جو شخص یا گروہ بھی نماز اور زکاۃ میں فرق کرتا ہو اور یہ کہے کہ میں نماز تو پڑھوں گا مگر زکاۃ ادا نہیں کروں گا، وہ مرتد ہے، اسے مسلمان سمجھنا ہی غلط ہے، لہٰذا ان لوگوں کی دلیل قابل قبول نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ لاالٰہ الا اﷲ کے قائلین پر تم کیسے تلوار اٹھائوگے۔ یہی دلائل تھے جن کی بِنا پر صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے فیصلے کے آگے سر جھکا دیا۔ یہ اگر ’’ویٹو‘‘ ہے تو کتاب اﷲ اور سنت رسول اللّٰہ کا ویٹو ہے نہ کہ سربراہِ ریاست کا۔
حقیقت میں اسے ویٹو کہنا ہی سرے سے غلط ہے، کیوں کہ حضرت ابو بکرؓ کے استدلال کو تسلیم کرلینے کے بعد اختلاف کرنے والے صحابہ کرامؓ اس کی صحت کے قائل ہوگئے تھے او راپنی سابقہ راے سے انھوں نے رجوع کرلیا تھا۔
(ترجمان القرآن، نومبر۱۹۶۳ء)