جواب
انسانی تمدن میں مادّی تغیرات کی مثال ان تغیرات کی سی ہے جو فر دانسانی کے جسم میں بچپن سے جوانی، جوانی سے کہولت اور کہولت سے بڑھاپے کی طرف منتقل ہوتے وقت رونما ہوتے ہیں ۔ان کا روح اور نفس سے گہرا تعلق ضرور ہے، مگر ان تغیرات کے نتائج کا کوئی ایسا متعین اور قطعی ٹھپا نہیں ہے جو تمام انسانوں کے نفس پر ہمیشہ یکسانی کے ساتھ لگتا ہو۔بلکہ ان میں فرد فرد کے لحاظ سے بھی اور انسانی جماعتوں کے لحاظ سے بھی بڑا فرق ہوتا ہے، جس میں بہت سے دوسرے عوامل کارفرما ہوتے ہیں ۔
اگر تعلیم، تربیت اور معاشرتی ڈھانچا جو کسی فرد انسانی کو میسر آئے، ایسا صالح ہو کہ فرد کو ارتقاے حیات کی طرف لے جانے کے ساتھ ساتھ وہ ایک عمدہ اور مضبوط سیرت کو بھی اس کے اندر نشو ونما دیتا رہے تو بچپن سے جوانی کی عمر میں داخل ہوتے وقت اس کی طبیعت کی جولانی غلط راہوں پر جانے کے بجاے بہترین تعمیری راہیں اختیار کرتی ہے او ریہ ارتقا بڑھاپے تک صحیح طریقے سے بڑھتا رہتا ہے۔ لیکن اگر تعلیم کسی صحیح فکر کو نشو ونما دینے والے فلسفے پر مبنی نہ ہو اور تربیت بھی غلط عادات وخصائل پیدا کرنے والی ہو اور پھر معاشرتی ڈھانچا بھی بگاڑنے والا ہی میسر آئے، تو ایک بچہ آغاز ہوش ہی سے مجرم بننا شروع ہوتا ہے۔ جوان ہوکر چو ر اورڈاکو بن کر اٹھتا ہے اور بڑھاپے تک اس کی جرائم پیشگی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ اسی طرح انسانی تمدن میں جو مادّی تغیر مثلاً صنعتی انقلاب سے رونما ہوا، اس میں بجاے خود کوئی خرابی نہ تھی۔ اس میں انسان کی بھلائی ہی کا سامان تھا،جیسے جوانی کا آنا بجاے خود کوئی برائی نہیں بلکہ انسان کے لیے اپنی ذات میں رحمت ہی ہے۔لیکن قصور اس فلسفۂ حیات کا تھا جو سولھویں ، سترھویں صدی سے یورپ میں نشو ونما پار ہا تھا۔اس نے ذہن کو بگاڑا، ذہن کے بگاڑنے اخلاق خراب کیے، اور اخلاق کی خرابی نے معاشرتی ڈھانچے کو، جو دور جاگیر داری سے بگڑا ہوا چلا آرہا تھا، اور زیادہ بگاڑ کر رکھ دیا۔اس حالت میں صنعتی انقلاب کی طاقت میسر آجانے سے قوموں کی قومیں جرائم پیشہ بن گئیں اور اب ایٹم کی طاقت پاکر تہذیب کی ساری نمائشوں کے باوجود اسفل السافلین کی طرف جارہی ہیں ۔ اس حالت میں جو فلاسفر لوگوں کو اس بگاڑ پر مطمئن کرنے کے لیے نئے نئے نظریاتی سہارے دیتے ہیں اور بگڑے ہوئے سانچے سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے سوسائٹی کی اقدار بدلنے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کی مثال اس دوست نما دشمن کی سی ہے جو ایک بگڑتے ہوئے بچے کو پہلی مرتبہ جیب کاٹنے پر شاباش کہے اور اسے یقین دلائے کہ یہ جیب تراشی تو ایک بہترین آرٹ ہے جس کی مذمت کرنے والے لوگ محض دقیانوسی ہیں ۔
میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ مادّی ترقی کے مقاصد اور اسلامی اقدار کے مقاصد میں کوئی حقیقی تضاد ہے ۔نہ میں یہ جانتا ہوں کہ یورپ میں صنعتی ترقی کے ساتھ جس مخصوص تمدن وتہذیب نے نشو ونما پایا ہے، یہ صنعتی ترقی سے کوئی جوہری تلازم رکھتا ہے، اور لازماًجب اور جہاں بھی یہ ترقی ہو گی، وہاں یہی تہذیب ظہور میں آئے گی،یا آنی چاہیے۔اسی طرح یہ مفروضہ بھی میرے لیے قابل قبول نہیں ہے کہ انسانی روح چرخے اور چاک اور چکی کے ساتھ تو تازہ دم رہ سکتی ہے مگر مشین ہی کی فطرت کچھ ایسی ہے کہ اس سے سابقہ پیش آتے ہی اس روح پر مردنی چھا جائے۔
میرے نزدیک ایک صحیح فلسفۂ حیات سے اگر ذہن درست کیے جائیں ،ایک صالح نظام اخلاق اگر سیرت گری کے لیے استعمال کیا جائے، اور ایک معتدل ومتوازن معاشرتی ڈھانچا انسانوں کو سنبھالنے کے لیے موجود ہو تو صنعتی ارتقا اور سائنس سے حاصل ہونے والی قوتوں کا استعمال موجودہ مغربی تمدن وتہذیب سے بنیادی طور پر بالکل مختلف ایک دوسرے تمدن و تہذیب کو نشو ونما دے سکتا ہے، جو اس سے بدرجہ ہازیادہ طاقت وَر بھی ہو اور پھر انسانیت کے لیے باعث رحمت بھی۔ مجھے یقین ہے کہ اسلام اور صرف اسلام ہی ہمیں اس طرح کا فلسفۂ حیات اور نظام اخلاق دے سکتا ہے اور اس کی راہ نمائی عملاً قبول کرکے اگر ہم اس کی ہدایات کے مطابق اپنا نظام تعلیم وتربیت عامہ، اور اپنا معاشرتی ڈھانچا بنا لیں تو ان شرائط کی تکمیل ہوسکتی ہے جو اوپر میں نے مادّی ترقی کے ساتھ ایک صالح تہذیب کی تشکیل کے لیے بیان کی ہیں ۔ اس معاملے میں یہودیت پہلے ہی مایوس کن تھی۔ عیسائیت نئے دور کے آغاز ہی میں ناکام ثابت ہوگئی۔ اور بودھ مت سرے سے اس میدان کا مرد تھا ہی نہیں ۔ رہے جدید مذاہب، سوشل ازم، فاش ازم اور کیپٹل ازم، سو وہ اپنے تمام عیوب ومحاسن کھول کر سامنے لا چکے ہیں اور دنیا خوب دیکھ چکی ہے کہ ان کے محاسن کو ان کے عیوب سے کیا نسبت ہے۔ نیا کوئی فلسفہ بھی اب تک ایسا سامنے نہیں آیا ہے جو ایک تہذیب کی بنیاد بننے کی اہلیت رکھتا ہو۔ اس کو سوچنے والے تمام تر اہل مغرب ہیں اور وہ اپنی اس تہذیب کے زہریلے پن سے تنگ آنے کے باوجود اس کی بنیادوں میں تغیر کرنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔بلکہ ان کے ذہن اس کے حدود سے آزاد ہوکر سوچنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے ۔وہ صرف جزوی ترمیمات سے کام چلانا چاہتے ہیں ، اور ان میں سے اکثر کی تجویز کردہ ترمیمیں مزید بگاڑ ہی کی طرف لے جانے والی ہیں ۔
اس مختصر خط میں میرے لیے وہ وجوہ بیان کرنا مشکل ہے جن کی بِنا پر میں اس معاملے میں اسلام کو علیٰ وجہ البصیرت کافی ہی نہیں بلکہ انسانیت کے لیے ایک ہی شعاع اُمید سمجھتا ہوں ۔ان دلائل کے اعادے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ میں انھیں اپنی متعدد کتابوں میں بیان کرچکا ہوں ، مثلاً اسلامی تہذیب اور اس کے اصول ومبادی، مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش حصہ سوم وغیرہ، اس کے علاوہ میرے بہت سے مضامین میں بھی اس کی طرف اشارات موجود ہیں ۔ (ترجمان القرآن، اگست ۱۹۵۹ء)