۱-عراقی کی شرح اور اصول حدیث کی دوسری کتابوں میں جرح کے پانچ مراتب مقرر کیے گئے ہیں۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ کسی راوی کے بارے میں کہا جاتاہے فلان کذاب او وضاع او یکذب اویصع الحدیث۔ دوسرا درجہ فلان متہم بالکذب او الوضع تیسرا درجہ فلان ردحدیث اوضعیف جد اوکل من قیل فیہ ذالک من ہذہ المراتب الثلاث لا تحتج بہ ولا یستشھدبہ ولا یعتبربہ الخ
جب اسی قسم کی سخت جرحیں صوم نصف شعبان کے راوی ابوبکربن عبداللہ پرکی گئی ہیں توپھروہ حدیث حددرجہ ضعیف کیوں نہیں ہوگی صرف ’ضعیف‘ کیوں ہوگی؟
۲- جیساکہ سیوطی نے تقریب نودی کی شرح میں لکھا ہے۔ حدیث ضعیف پرعمل کے لیے تین شرطیں لگائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ حددرجہ ضعیف نہ ہو، دوسری یہ کہ وہ شریعت کی اصل عام کے خلاف نہ ہو اور تیسری یہ کہ اس حدیث سے جو بات بھی ثابت ہوتی ہو اس کی سنیت کا اعتقادنہ کیاجائے بلکہ صرف احتیاط کا اعتقاد کیاجائے۔حدیث علیؓ بروایت ابوبکر بن عبداللہ حددرجہ ضعیف ہے اس لیے فضائل اعمال میں بھی وہ قبول نہیں کی جائے گی۔ صاحب تحفہ الاحوذی نے غالباً لکھا ہے کہ نصف شعبان کے روزے کے لیے نہ کوئی مرفوع حدیث ہے نہ حسن اورنہ کوئی حدیث ضعیف خفیف الضعف، نہ اس کے لیے کوئی قوی یا ضعیف اثر موجود ہے۔ امید ہے کہ آپ (اپنے گزشتہ )فتوے پر نظرثانی فرمائیں گے اور ہمارے ان اشکالات کو رفع کریں گے۔ ہمارے پاس جو فتویٰ آیا ہے اس پر کوئی نمبر نہیں ہے۔ ہاں وہ ۲۰؍جولائی ۱۹۷۰ء کو لکھا گیاہے۔
جواب
گرامی نامہ ملا۔آپ نے لکھا ہے کہ جو فتویٰ آیا ہے اس پر کوئی نمبر نہیں ہے۔ مکرمی! ادارہ زندگی میں کوئی دارالافتا نہیں ہے رسائل ومسائل کے صفحات میں مدیر زندگی بشرط فرصت جو جوابات دیتا ہے ان کی حیثیت محض اظہاررائے کی ہوتی ہے۔ آپ میری رائے کو ’فتویٰ‘ نہ سمجھیں۔ حدیث ضعیف کو فضائل اعمال میں قبول کرنے کی وہ تین شرطیں جن کا ذکر آپ نے کیا ہے بعد کے محدثین نے لگائی ہیں۔ علامہ نووی نے بھی اپنی کتاب تقریب میں وہ شرطیں نہیں لگائی ہیں۔ خود سیوطی نے شرح تقریب میں لکھا ہے کہ ابن الصلاح اور نووی نے اپنی کتاب ’ماسوی الموضوع من الضعیف‘ میں اس کے سوا کوئی شرط نہیں لگائی ہے کہ اس پر صرف فضائل اعمال میں عمل کیا جاسکتا ہے اور ظاہر ہے کہ موضوع کے سواجتنی ضعیف حدیثیں ہیں ان میں حد درجہ ضعیف حدیث بھی داخل ہے۔ امام احمدبن حنبل، ابودائود، ابن مہدی اورابن مبارک وغیرہم کامسلک یہی ہے کہ جوحدیث موضوع نہ ہو و ہ فضائل اعمال میں لائق اعتبارہے، اسے بالکل ردنہیں کیاجائےگا۔ آپ نے جرح کے جتنے الفاظ لکھے ہیں ان محدثین کے نزدیک ان سب کا لحاظ ان احادیث میں کیاجائے گاجن کا تعلق شرعی احکام اور عقائد سے ہو۔راقم الحروف نے اسی مسلک کو ترجیح دیتے ہوئے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ ۱۵؍شعبان کا روزہ بدعت نہیں ہے۔
صاحب تحفہ الاحوذی نے بھی صرف اتنا لکھا ہےکہ میں نے نصف شعبان کے روزے کے لیے کوئی مرفوع صحیح حدیث نہیں پائی ہے۔ اگر آپ ان محدثین کی رائے کو ترجیح دیتے ہیں جنہوں نےفضائل اعمال میں بھی حدیث ضعیف کو قبول کرنے کے لیے وہ تین شرطیں لگائی ہیں تو آپ کو اس کا اختیارحاصل ہے۔ نصف شعبان کا روزہ شریعت کی کسی اصل عام کے خلاف نہیں ہے اورجیساکہ میں نے پہلے لکھا ہے اسے مسنون سمجھنا بھی صحیح نہیں ہے تو اب اختلاف صرف یہ رہ جاتاہے کہ ’اس حد درجہ ضعیف حدیث‘ کو بالکل رد کرکے نصف شعبان کے روزے کو بدعت قراردیاجائے یا نہیں ؟ میرے نزدیک وہ بدعت نہیں ہے بلکہ اس دن کے روزے کو ایک طرح کی فضیلت حاصل ہے۔
(اکتوبر۱۹۷۰ء،ج۴۵،ش۴)