جواب
دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے اسلام صرف ایک ہی حل پیش کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا نے اپنے رزق کے جو ذرائع پیدا کیے ہیں ،ان کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے اور استعمال کرنے کی کوشش کی جائے، اور جو ذرائع اب تک مخفی ہیں ،ان کو دریافت کرنے کی پیہم سعی کی جاتی رہے۔ آبادی روکنے کی ہر کوشش خواہ وہ قتل اولاد ہو یا اسقاط حمل،غلط اور بے حد تباہ کن ہے۔ضبط ولادت کی تحریک کے چار نتائج ایسے ہیں جن کو رونما ہونے سے کسی طرح نہیں روکا جاسکتا:
(۱)زنا کی کثرت۔
(۲) انسان کے اندر خود غرضی اور اپنا معیار زندگی بڑھانے کی خواہش کا اس حد تک ترقی کرجانا کہ اسے اپنے بوڑھے ماں باپ اور اپنے یتیم بھائیوں اور اپنے دوسرے محتاجِ امداد رشتہ داروں کا وجود بھی ناگوار گزرنے لگے۔ کیوں کہ جو آدمی اپنی روٹی میں خود اپنی اولاد کو شریک کرنے کے لیے تیارنہ ہو ،وہ دوسروں کوبھلا کیسے شریک کرسکے گا؟
(۳)آبادی کے اضافے کا کم سے کم مطلوب معیار بھی جو ایک قوم کو زندہ رکھنے کے لیے ناگزیر ہے، برقرار نہ رہنا۔ اس لیے کہ جب یہ فیصلہ کرنے والے افراد ہوں گے کہ وہ کتنے بچے پیدا کریں اور کتنے نہ کریں ،اور اس فیصلے کا مدار اس بات پر ہوگا کہ وہ اپنے معیار زندگی کو نئے بچوں کی آمد کی وجہ سے گرنے نہ دیں ، تو بالا ٓخر وہ اتنے بچے بھی پیدا کرنے کے لیے تیار نہ ہوں گے جتنے ایک قوم کو اپنی قومی آبادی برقرار رکھنے کے لیے درکار ہوتے ہیں ۔اس طرح کے حالات میں کبھی کبھی نوبت یہ بھی آجاتی ہے کہ شرح پیدائش شرح اموات سے کم تر ہوجاتی ہے۔چنانچہ یہ نتیجہ فرانس دیکھ چکا ہے ،حتیٰ کہ اس کو’’بچے زیادہ پیدا کرو‘‘ کی تحریک چلانی پڑی اور انعامات کے ذریعے سے اس کی ہمت افزائی کرنے کی ضرورت پیش آگئی۔
(۴)قومی دفاع کا کمزور ہوجانا۔ یہ نتیجہ خصوصی طورپر ایک ایسی قوم کے لیے بے حد خطرناک ہے جو اپنے سے کئی گنا زیادہ دشمن آبادی میں گھری ہوئی ہے،پاکستان کے تعلقات ہندستان اور افغانستان کے ساتھ جیسے کچھ ہیں ،سب کومعلوم ہے، اور امریکا کی دوستی نے کمیونسٹ ممالک سے بھی اس کے تعلقات خراب کردیے ہیں ۔بحیثیت مجموعی ہندستان، چین،روس اور افغانستان کی آبادی ہم سے تیرہ گنا ہے۔ ان حالات میں لڑنے کے قابل افرادکی تعداد گھٹانا جیسی کچھ عقل مندی ہے ،اسے ایک صاحب عقل آدمی خود سوچ سکتا ہے۔ (ترجمان القرآن، جنوری ۱۹۶۲ء)