طریق انتخاب کے مسئلے میں ریفرنڈم

طریق انتخاب کے مسئلے میں جماعت اسلامی نے ریفرنڈم کرانے کا جو مطالبہ کیا تھا، اس پر مختلف حلقوں کی طرف سے مختلف اعتراضات کیے گئے ہیں ۔ میں ان کا خلاصہ پیش کرکے آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس ان اعتراضات کا کیا جواب ہے: ۱۔جداگانہ انتخاب اگر دین اور شریعت کے اصول اور احکام کا لازمی تقاضا ہے تو اس پر عوام سے استصواب کے کیا معنی؟ کیا اسی طرح کل نماز اور روزے پر بھی استصواب کرایا جائے گا؟ کیا آپ یہ اصول قائم کرنا چاہتے ہیں کہ عوام کی اکثریت جس چیز کو حق کہے وہ حق، اور جس چیز کو باطل کہے وہ باطل؟ فرض کیجیے کہ ریفرنڈم میں اکثریت کا فیصلہ مخلوط انتخاب کے حق میں نکلے تو کیا آپ اس کو حق مان لیں گے اور پھر جداگانہ انتخاب اسلامی اصول واحکام کا تقاضا نہ رہے گا؟ ۲۔ جداگانہ اور مخلوط دونوں ہی طریقے غیر اسلامی ہیں ، کیوں کہ اسلام کی رو سے تو مجلس شوریٰ میں غیر مسلم کی نمایندگی ہی اصولاً غلط ہے۔آپ جب جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کرتے ہیں تو کیا اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آپ نے اسلامی ریاست کی مجلس شوریٰ میں غیر مسلم کی شرکت کا اصول مان لیا۔ ۳۔ استصواب راے کی تجویز لا کر آپ نے طریق انتخاب کے مسئلے کو اس خطرے میں ڈال دیا ہے کہ شاید اس کا فیصلہ مخلوط انتخاب کے حق میں ہو۔ آخر آپ کے پاس اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ اس کا نتیجہ لازماً جداگانہ طریق انتخاب ہی کے حق میں ہوگا۔ ۴۔ یہ عجیب بات ہے کہ آپ مخلوط انتخاب کے مخالف ہیں مگر طریق انتخاب کا فیصلہ مخلو ط راے شماری سے کرانے کے لیے تیار ہیں ۔آخر ریفرنڈم بھی تو مخلوط ہی ہوگا۔ ۵۔آپ طریق انتخاب کے مسئلے پر ریفرنڈم کرانے کے بجاے یہ کیوں نہیں کرتے کہ ملک کے آئندہ انتخابات عام میں اس مسئلے پر الیکشن لڑیں ؟ اگر عوام الناس جداگانہ انتخاب کے حامی ہیں تو وہ انھی لوگوں کو ووٹ دیں گے جو اس طریق انتخاب کے حامی ہوں گے۔اس طرح اس مسئلے کا تصفیہ ہوجائے گا۔ ۶۔ ریفرنڈم کے لیے ملک کے موجودہ دستور میں کوئی گنجائش نہیں ہے،اس لیے ناگزیر ہوگا کہ پہلے قومی اسمبلی اس مقصد کے لیے دستور میں ترمیم کرے، اور ترمیم کے لیے لامحالہ۲/۳ اکثریت درکار ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ جب مخلوط انتخاب کے قانون کو بدلنے کے لیے مجرد اکثریت بہم نہیں پہنچ رہی ہے تو ریفرنڈم کے لیے۳ /۲ اکثریت کہاں سے بہم پہنچے گی؟ ۷۔جمہوری ممالک میں بالعموم ریفرنڈم کے ذریعے سے ملکی مسائل کا فیصلہ کرنے کے بجاے پارلیمنٹ یا ایوان نمائندگان ہی کو آخری فیصلے کے اختیارات دیے گئے ہیں ۔براہِ راست عوام سے مسائل کا تصفیہ کرانے میں بہت سی قباحتیں ہیں جن کی وجہ سے یہ طریقہ جمہوری ملکوں میں مقبول نہیں ہوا ہے۔ یہ ہیں وہ بڑے بڑے اعتراضات جو ریفرنڈم کی تجویز پر میں نے سنے یا پڑھے ہیں ۔ان سے کم ازکم شک یا تذبذب کی کیفیت تو ذہنوں میں پیدا ہوہی جاتی ہے،اس لیے مناسب ہوگا کہ آپ ان سب کو صاف کرکے عوام کو اس مسئلے میں پوری طرح مطمئن کردیں ۔
جواب

پہلا اعتراض جن اصحاب نے پیش فرمایا ہے،ان کو شاید معلوم نہیں ہے کہ پاکستان کا نظام حکومت ابھی تک دین اور شریعت کے اصول واحکام پر قائم نہیں ہوا ہے بلکہ یہ اس جمہوری دستور پر قائم ہے جو اکثریت کو فیصلہ کن اختیار دیتا ہے۔ اگر کہیں یہ بات یہاں طے ہوچکی ہوتی کہ جو کچھ دین اور شریعت کی رو سے ثابت ہو، وہی ملک کا قانون ہوگا، تو پھر رونا ہی کس بات کا تھا۔ یہی ایک مسئلہ کیا معنی، کسی مسئلے کو بھی دین کے منشا کے مطابق حل کرنے میں کوئی زحمت پیش نہ آتی۔جس مسئلے میں بھی دلائل شرعیہ سے ایک حکم ثابت کردیا جاتا وہ خود بخود قانون بن جاتا، اور اس کے خلاف جو قانون بھی ہوتاوہ آپ سے آپ منسوخ ہوجاتا۔لیکن آخر یہ بات کس سے چھپی ہوئی ہے کہ یہاں عملاً یہ صورت حال موجود نہیں ہے۔آپ کی آنکھوں کے سامنے نیشنل اسمبلی کی اکثریت نے مخلوط انتخاب کا قانون پاس کیا اور وہ ملک کا قانون بن گیا۔ اب اس قانون کو اگر بدلا جاسکتاہے تو اکثریت ہی کے فیصلے سے بدلا جاسکتاہے، ورنہ تمام علما مل کر بھی اگر متفقہ فتویٰ دے دیں کہ مخلو ط انتخاب اسلام کے خلاف ہے تب بھی قانون اپنی جگہ جوں کا توں قائم رہے گا۔ایسی حالت میں خواہ مخواہ خیالی باتیں کرنے سے کیا فائدہ؟ آپ طریق انتخاب کے اس ملحدانہ قانون کو واقعی بدلوانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے وہ طریقہ اختیار کیجیے جو موجودہ جمہوری نظام میں ممکن العمل اور مؤثر ہوسکتا ہے۔ایسا نہ کریں گے تو حاصل اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ آپ دلائل وبراہین کے انبار لگاتے رہیں گے اور انتخابات مخلوط بنیاد پر ہوتے رہیں گے۔
یہ کہنا کہ کیاکل نماز اور روزے پر بھی ریفرنڈم کرایا جائے گا،ایک اور بے خبری کی دلیل ہے۔ ان حضرات کو یہ معلوم نہیں ہے کہ یہاں آج نماز اور روزے کی جو آزادی حاصل ہے ،وہ بھی اس بِنا پر نہیں ہے کہ شریعت سے یہ احکام ثابت ہیں ، بلکہ صرف اس بِنا پر ہے کہ دستور نے بنیادی حقوق کے سلسلے میں باشندوں کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کا حق دیا ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو ملک کی مجالس قانون ساز اکثریت کے ووٹ سے نماز اور روزے کے احکام میں بھی رد وبدل کرسکتی تھیں ، اور اس کے ایسے قوانین سے نجات پانے کی کوئی سبیل اس کے سوا نہ ہو سکتی تھی کہ یا تو بغاوت کیجیے،ورنہ جمہوری طریقے سے فیصلہ کرانے کے لیے ریفرنڈم کا مطالبہ کیجیے۔
مجلس قانون ساز کے فیصلے اور ریفرنڈم کے فیصلے میں درحقیقت اصولی حیثیت سے کوئی فرق نہیں ہے۔دونوں جگہ اکثریت ہی کا فیصلہ مؤثر ہوتا ہے۔فرق صرف عملی صورت کا ہے۔ ایک جگہ مجلس قانون ساز کے ارکان کی اکثریت فیصلہ کرتی ہے، اور دوسری جگہ ملک کے عام باشندوں کی اکثریت۔ اب یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جو لوگ مجالس قانون ساز کے معاملے میں اکثریت کے اختیارات قانون سازی کو مانے بیٹھے ہیں ،وہ عوام کی اکثریت کے اختیار کا نام سن کر شور مچانے لگتے ہیں ۔
ریفرنڈم کے متعلق یہ بات بھی ان حضرات کو معلوم نہیں ہے کہ وہ حق اور باطل کافیصلہ کرنے کے لیے نہیں ہوتا،بلکہ یہ فیصلہ کرنے کے لیے ہوتا ہے کہ ملک کا قانون کیا ہو اور کیا نہ ہو۔ جس چیز کو ہم باطل سمجھتے ہیں اگر ریفرنڈم میں اکثریت کا فیصلہ اس کی تائید میں ہوجائے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم اسے حق مان لیں گے ،بلکہ ا س کے معنی صرف یہ ہیں کہ ملک کا قانون وہ چیز قرارپائے گی جس کی تائید میں اکثریت نے فیصلہ دیا ہے۔ ہمیں اس کے بعد بھی یہ حق حاصل رہے گا کہ اسے باطل کہیں ، اس کے بطلان پر دلائل لائیں ، اور عوام کی راے کو اس کے خلاف تیار کرتے رہیں ، یہاں تک کہ عوام ہی کی اکثریت کو فیصلہ بدلنے پر راضی کرلیں ۔ آخر اب جو اکثریت کے فیصلے سے ملک کی اسمبلیوں میں قوانین بنتے ہیں ،ان میں سے کس قانون کا بن جانا یہ معنی رکھتا ہے کہ اقلیت نے اس کو حق مان لیا اور اس کے خلاف اپنی راے کو باطل تسلیم کرلیا؟
[۲]دوسرااعتراض جن لوگوں نے پیش کیا ہے ،ان کی پوزیشن بھی عجیب ہے۔ جب دستور میں غیرمسلموں کو نمائندگی کا حق دیا گیا ،اس وقت وہ خاموش رہے۔جب مخلوط انتخاب کا قانون پاس ہوا،اس وقت بھی وہ منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہے۔ آج بھی غیر مسلموں کے حق نمائندگی کو دستور سے منسوخ کرانے کے لیے وہ کوئی ایجی ٹیشن نہیں فرما رہے ہیں ۔یہ نکتہ ان کو صرف اس وقت سوجھتا ہے جب جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔اس سے یہ بات خود واضح ہوجاتی ہے کہ دراصل یہ اپنے مخصوص پیشوائوں کی پیروی میں مسلم وغیر مسلم کی متحدہ قومیت کے قائل ہیں اور ان کے پیش نظر صرف یہ ہے کہ کسی طرح مخلوط انتخاب یہاں رائج ہوجائے۔ غیر مسلم کے حق نمائندگی کا انکار صرف ایک بہانہ ہے جو اپنی اغراض کے لیے انھوں نے استعمال کرنا شروع کیا ہے،ورنہ وہ بتائیں کہ اپنے ان پیشوائوں کے متعلق ان کی کیا راے ہے جنھوں نے ہندستان میں لادینی ریاست کے قیام کی حمایت فرمائی تھی۔
رہا ان کا اصل اعتراض ،تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے مخلو ط اور جداگانہ انتخاب کی حیثیت ہرگز یکساں نہیں ہے۔ مخلوط انتخاب کی بنیاد اس نظریے پر ہے کہ ایک ملک کے رہنے والے تمام باشندے،خواہ وہ مسلم ہوں یا ہندو یا عیسائی یا پارسی، سب ایک قوم ہیں ، ملک کی حکومت اس واحد قومیت کی مشترک حکومت ہے،اور اسے چلانے کا کام ان لوگوں کے سپرد ہونا چاہیے جو بلا امتیاز دین و مذہب اس قوم کے تمام افراد کے مشترک نمائندے ہوں ۔ یہ نظریہ سرے سے اسلامی ریاست ہی کے تصور کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔ اس پر جو نظام حکومت قائم ہوگا، وہ صرف لادینی ہوگا۔ اس میں اسلام اور دوسرے مذاہب ایک سطح پر آجائیں گے اور ان میں سے کسی کو بھی ملک کے معاملات میں دخل دینے کا حق نہ ہوگا۔ اس کی اسمبلیوں میں منتخب ہوکر آنے والے نمائندے اپنی شخصی حیثیت میں خواہ مسلم یا ہندو یا عیسائی ہوں ، مگر نمائندہ ہونے کی حیثیت سے وہ صرف’’پاکستانی قوم‘‘ کے نمائندے ہوں گے اور ان کو کسی مذہب یا مذہبی گروہ کی طرف سے بولنے کا حق نہ ہوگا۔ اس کے بعد یہاں موجودہ دستور کی ان دفعات کے بھی باقی رہنے کا کوئی امکان نہیں ہے جنھیں ہم اسلامی دفعات کہتے ہیں ۔ کجا کہ یہاں کبھی پورے معنوں میں اسلامی حکومت قائم ہونے کی امید کی جا سکے۔
ا ب کون صاحب عقل آدمی کہہ سکتا ہے کہ یہ نظریہ اور جداگانہ انتخاب کا نظریہ دونوں اسلامی نقطۂ نظر سے برابر کی حیثیت رکھتے ہیں ؟جداگانہ انتخاب قومیت کی بنیاد دین پر رکھتا ہے اور اس سے مسلمانوں کی مستقل قومیت برقرار رہتی ہے۔اس کے ذریعے سے مسلمان نمائندے صرف مسلمانوں کی راے سے منتخب ہوں گے اور وہ اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے بولنے کے مجاز ہوں گے۔ان نمایندوں کی اکثریت اگر اسلامی ذہنیت رکھنے والی ہو تو وہ موجودہ دستور کی دی ہوئی گنجائشوں سے فائدہ اٹھا کر نظام حکومت کو اسلام کی راہ پر چلا سکے گی اور اس صورت میں ہر وقت یہ ممکن ہوگا کہ دستور کو بھی بدل کر پورا پورا اسلامی بنا دیا جائے۔اس نظام میں زیادہ سے زیادہ اگر کوئی قباحت ہے توصرف یہ کہ اس کے اندرغیر مسلم نمائندے بھی قانون سازی اور حکومت کی راہ نمائی میں حصہ دار ہوں گے۔اس چیز کی اصلاح اس صورت میں تو کسی نہ کسی وقت ہوسکے گی جب کہ نظام حکومت کی بنیاد اسلامی رہے۔لیکن مخلوط وطنی قومیت کا نظریہ قائم ہوجانے کے بعد تو سرے سے یہ بنیاد ہی باقی نہ رہے گی۔
[۳]تیسرا اعتراض صرف ایک واہمہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر پورے ملک میں طریق انتخاب کے مسئلے پر استصواب راے ہو تو مخلوط انتخاب کے حق میں فیصلہ ہونے کا ایک فی صد بھی امکان نہیں ہے۔ جہاں تک مغربی پاکستان کا تعلق ہے،یہاں ہر شخص جانتا ہے کہ عوام اور خواص کی بڑی عظیم اکثریت اس طریق انتخاب کی سخت مخالف ہے، حتیٰ کہ اُن لوگوں کے خلاف یہاں شدید نفرت پائی جاتی ہے جو ا س لعنت کو پاکستان میں لانے کے موجب ہوئے ہیں ۔ رہا مشرقی پاکستان، تو اپنے تجربے اور مشاہدے کی بِنا پر میں کہہ سکتا ہوں کہ وہاں مسلمانوں کی راے کم ازکم ۹۰ فی صد جداگانہ انتخاب کے حق میں ہے، اور اب تو وہاں کے عوام ہی نہیں ، تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت بھی مخلوط انتخاب کی مخالف ہوچکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ خود غرض سیاسی لیڈر جو محض اپنے اقتدار کے لیے سودے بازی کرکے اس ملعون طریق انتخاب کو رائج کرنے کے ذمہ دار ہیں ،ریفرنڈم کا نام سنتے ہی کانپ اٹھتے ہیں ،کیوں کہ انھیں معلوم ہے کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔ ورنہ اگر ریفرنڈم میں ان کے جیتنے کا کچھ بھی امکان ہوتا تو وہ اس چیلنج کا سامنا کرنے سے یوں نہ گھبراتے۔
[۴]چوتھے اعتراض کو پیش کرنے والے حضرات شاید اس غلط فہمی میں ہیں کہ یہاں غیر مسلموں کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہ تھا اور اب یہ بات ہم نے بطورِ خود تجویز کردی ہے کہ ریفرنڈم میں ان کی راے بھی لی جائے۔حالاں کہ ملک کا دستور پہلے ہی یہ حق ان کو دے چکا ہے اور اس دستور کے تحت جو راے شماری بھی کسی ملکی مسئلے پر ہوگی ،ان سے اس کو الگ نہ کیا جاسکے گا۔
[۵]انتخابات عام سے پہلے جس بِنا پر ہم طریق انتخاب کے مسئلے کا فیصلہ ریفرنڈم کے ذریعے سے کرانا چاہتے ہیں ،وہ یہ ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو لامحالہ ملک کے پہلے انتخابات مخلوط بنیاد ہی پر ہوں گے ،اور اس طریق انتخاب کی تبدیلی صرف انتخابات کے بعد ہی ہوسکے گی، جس کا کوئی فائدہ دوسرے انتخابات کی تبدیلی کی نوبت آنے تک مترتب نہ ہوسکے گا۔اب یہ بات ہم مشرقی پاکستان کے حلقہ ہاے انتخاب کاپورا تجزیہ کرکے ناقابل تردید اعداد وشمار سے ثابت کرچکے ہیں کہ پہلا ہی انتخاب جو مخلو ط بنیاد پر ہوگا، اس کی بدولت وہاں ایسے لوگ بڑی تعداد میں منتخب ہوکر آجائیں گے جو بنگالی قوم پرستی کے نشے میں سرشار ہیں اور آج بھی متحدہ بنگال کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ یہ لوگ اگر وہاں طاقت پکڑ گئے تو دوسرے انتخاب کی نوبت آنے سے پہلے ہی چند سال کے اندر وہ پاکستان کی وحدت وسا لمیت پر ایک کاری ضرب لگا چکے ہوں گے۔ ا س خطرے کو جو لوگ برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں ، انھیں اختیار ہے کہ ریفرنڈم کی مخالفت کرکے مخلوط بنیاد پر انتخابات عام منعقدکرانے کی راہ ہموار کرتے رہیں ۔ لیکن جو لوگ اس کے خطرناک نتائج کا کوئی احساس کرتے ہیں ،ان کی پوزیشن سمجھنے سے ہم بالکل قاصر ہیں ۔
[۶] چھٹا اعتراض ہمارے نزدیک دستوری پوزیشن سے سراسر ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ طریق انتخاب پر ریفرنڈم کرانے کے لیے دستور میں کسی ترمیم کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ دستور کی کوئی دفعہ اس خاص مسئلے پر یا کسی ملکی مسئلے پر بھی ریفرنڈم کرانے میں مانع نہیں ہے جسے بدلے بغیر یہ کام نہ کیا جاسکتا ہو۔ دستور نے طریق انتخاب کا فیصلہ کرنے کے لیے نیشنل اسمبلی کو صرف ایک دفعہ دونوں صوبائی اسمبلیوں سے راے لے لینے کا پابند کیا تھا، سو یہ شرط پوری کی جاچکی ہے۔ اس پابندی کا تقاضا پورا ہوجانے کے بعد اب اسمبلی پرکوئی پابندی نہیں ہے جسے رفع کرنے کے لیے کسی دستوری ترمیم کی حاجت ہو۔ اور اس پابندی کو کسی ہیر پھیر سے بھی یہ معنی نہیں پہنائے جاسکتے کہ یہ نیشنل اسمبلی دونوں صوبائی اسمبلیوں سے راے لینے کے علاوہ اگر کسی اور طریقے سے بھی راے عام معلوم کرنے کی ضرورت محسوس کرے تو دستور ایسا کرنے میں مانع ہے۔اس لیے یہ اسمبلی جب چاہے ریفرنڈم کرانے کے لیے ایک مجرد اکثریت سے ایک قانون پاس کرسکتی ہے۔
[۷]ساتویں اعتراض میں اوّل تو یہی بات غلط کہی گئی ہے کہ جمہوری ممالک میں بالعموم ریفرنڈم کا طریقہ رائج نہیں ہے۔ یہ بات صرف ان ممالک کے حق میں صحیح ہے جو برطانوی جمہوریت کے نقال یا فرانسیسی طرز جمہوریت کے مقلد ہیں ۔ باقی رہے دوسرے جمہوری ممالک، تو ان میں یہ طریقہ بالعموم رائج ہے۔سوئٹزر لینڈ تو اس معاملے میں مشہور ہی ہے۔اس کے علاوہ آسٹریلیا،کینیڈا،نیوزی لینڈ اور آئرش فری اسٹیٹ کے دستوروں میں بھی اس کے متعلق واضح دفعات موجود ہیں ۔آسڑیلیا میں ۱۹۱۰ء سے ۱۹۲۵ء تک ۱۲ مرتبہ اور نیوزی لینڈ میں ۱۹۱۱ء سے۱۹۲۸ء تک ۶ مرتبہ ریفرنڈم ہوچکا ہے۔ کینیڈا میں بھی کئی مرتبہ دستوری مسائل پر ریفرنڈم ہوا ہے اور لوکل گورنمنٹ کے مسائل کا فیصلہ کرنے کے لیے تو وہاں کثرت سے یہ طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یورپ میں آسٹریا،جرمنی، ایسٹونیا، لیتھوانیا، لٹیویا، اور چیکو سلوواکیہ کے جمہوری دستور ریفرنڈم کے متعلق اہم دفعات پر مشتمل ہیں ۔ امریکا کی دو ریاستوں کے سوا باقی تمام ریاستوں میں دستوری مسائل پر ریفرنڈم کرانے کا طریقہ رائج ہے اور قانونی امور پر بھی۱۴ ریاستوں میں ریفرنڈم کرایا جاسکتا ہے۔اس لیے یہ کہنا بالکل خلاف واقعہ ہے کہ جمہوری ممالک میں بالعموم پارلیمنٹ یا ایوان نمائندگان ہی کو فیصلے کے آخری اورقطعی اختیارات دے دیے گئے ہیں اور عوام کو قوانین بنانے یا بدلنے کے ہر اختیار سے محروم کرکے رکھ دیا گیا ہے۔
رہی یہ بات کہ عوام سے مسائل کا تصفیہ کرانے میں کچھ قباحتیں ہیں جن کی وجہ سے یہ طریقہ جمہوری ملکوں میں مقبول نہیں ہوا ہے، تو درحقیقت یہ بھی ایک دعویٰ ہے جو ناواقفیت کی وجہ سے کر دیا گیا ہے،ورنہ اصل معاملہ اس کے برعکس ہے۔ایوان نمائندگان کو آخری اور قطعی اختیارات دے دینے میں کچھ ایسی قباحتیں ہیں جن کاتجربہ کرنے کے بعد جمہوری ممالک میں ریفرنڈم کے طریقے کو مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔امریکا میں اس طریقے کا رواج بیسویں صدی کے آغاز سے ہوا ہے اور اس کی وجہ ایک ماہر دستوریات یہ بیا ن کرتا ہے:
’’ممالک متحدہ امریکامیں عوام کی طرف سے براہِ راست قانون سازی کا طریقہ رائج ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنی ریاستوں کے ارکان مجالس قانون ساز کی کارگزاری سے غیر مطمئن ہوگئے ہیں ۔قابل اعتماد قیادت کا فقدان، مخصوص مفادات رکھنے والوں کا ارکان مجالس سے مل مل کر ان کی راے پر اثر انداز ہونا اور بعض بڑے بڑے سیاسی اجارہ داروں کا وقتاً فوقتاً قانون ساز مجالس پر حاوی ہوجانا،یہ وہ چیزیں ہیں جنھیں دیکھ دیکھ کر انیسویں صدی کے آخری دور میں لوگ اپنے قانون سازوں سے غیر مطمئن ہوتے چلے گئے۔لوگوں نے محسوس کیا کہ اگر ہم براہِ راست کام کریں تو اس سے بدتر کارگزاری تو نہ دکھائیں گے،بلکہ شاید اس سے بہتر ہی کر دکھائیں ۔اس بِنا پر انھوں نے قوانین بنانے اور مجالس قانون ساز کے بناے ہوئے قوانین کو رد کرنے کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے،نہ اس غرض کے لیے کہ روز مرہ کے معاملات میں بالعموم وہ یہ کام کیا کریں ،بلکہ صرف اس غرض کے لیے کہ جب کسی دوسرے ذریعہ سے نتیجہ و مطلوب حاصل نہ ہو تو اس ذریعے کو استعمال کیا جائے۔‘‘({ FR 2276 })
اب ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ ہمارے ہاں اس آخری چارۂ کار کے اختیار کرنے کی ضرورت امریکا اور دنیا کے ہر دوسرے ملک سے زیادہ ہے جہاں کھلی کھلی دھاندلیوں اور جعل سازیوں اور زر پاشیوں سے کچھ لوگ زبردستی ایوان نمایندگان میں پہنچے ہوں ،جہاں بڑے بڑے بااثر لوگ چور دروازوں سے پارلیمنٹ میں داخل ہوئے ہوں ، جہاں سازشیں اور سودے بازیاں کرکے نہایت نازک اور اہم ملکی مسائل کے متعلق ایسے قوانین بناے جاتے ہوں جن کا اصل مقصود بس چند لوگوں کو برسراقتدار رکھنا ہو، اور جہاں حالت یہ ہو کہ ایک طرف سارا ملک چیخ رہا ہے اور دوسری طرف قانون سازی کے اجارہ دار اپنی من مانی کیے جارہے ہیں ،ایسی جگہ تو عوام کے لیے ان بددیانت قانون سازوں کی زیادیتوں سے نجات پانے کا یہ راستہ لازماً کھلنا چاہیے، کہ جو قانون ان کی مرضی کے خلاف اور ان کے احتجاج کے علی الرغم بنایا گیا ہو، اسے وہ ریفرنڈم کے ذریعے سے بدل سکیں ۔ میں نہیں سمجھتا کہ جو لوگ جمہوریت پسندی کے دعوے کرتے ہیں وہ آخر کس منہ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ناجائز ہتھکنڈوں سے برسر اقتدار آنے والے لوگ چند سال کے لیے ملک میں مختار کل بنا کر رکھ دیے جائیں اور وہ اپنی اغراض کے لیے خواہ کیسے ہی ناروا قوانین بنا بیٹھیں ، عوام کے پاس ان کے فیصلے بدلوانے کا کوئی اختیار نہ ہو۔ (ترجمان القرآن ، مئی ۱۹۵۸ء)