طعنہ تشنہ

زندگی ماہ مئی ۱۹۷۵ء ص ۵۶ پر بسلسلہ تبصرہ جناب نے ’طعنوں وطشنوں ‘ پرجو اصلاح فرمائی ہے وہ میری نظر میں خود اصلاح طلب ہے۔ ’طعن وتشنہ‘ خود غلط ہے طعن کا جزء مرادف تشنیع ہے نہ کہ تشنہ لہٰذا صحیح ’طعنوں تشنیعوں ‘ ہے اور یہی ادبا کی نگار شات میں مستعمل ہے۔ طعن وتشنہ کی سند کہیں نہ مل سکے گی۔ اگر بے محل نہ ہوتو شائع شدہ اصلاح کی اصلاح آئندہ نمبر میں شائع فرمادیں۔ کیوں کہ عوام کو کسی مدیر کی تحریر سے استناد غلط راہ پر ڈال سکتا ہے۔

جواب

میری اصلاح پراصلاح دینے میں آپ نے جلدی کی اور عجلت میں آپ نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ میں نے کیا لکھا ہے۔ آپ نے لکھا ہے کہ ’طعن وتشنہ‘ خود غلط ہے حالاں کہ میں نے تبصرے میں صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ ’’درمیان میں واو نہیں ہونا چاہیے’’طعنوں تشنوں ‘‘ استعمال کرنا چاہیے۔‘‘ اس سے معلوم ہواکہ میرے نزدیک ’طعنہ تشنہ‘ صحیح استعمال ہے۔ یہ تو ’واو‘ کی بات ہوئی اب تشنہ کے بارے میں عرض ہے کہ یہ لفظ تشنیع سے بگڑ کر اردو میں مستعمل ہواہے اور اب اردو زبان کا لفظ ہے۔ اہل لغت نے اس کی صراحت کردی ہے۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ ’فرہنگ آصفیہ‘ کو اردو کامستند لغت تسلیم کیاجاتا ہے۔ میں ذیل میں اس کا حوالہ نقل کرتاہوں 

تشنا اسم مذکرملامت، بدگوئی، طعنہ طعن وتشنیع (یہ لفظ تشنیع سے بگڑا ہواہے اور اکثر طعنہ کے ساتھ مستعمل ہے۔                                (فرہنگ آصفیہ ج۱ مطبوعہ نیشنل اکاڈمی دہلی -۶)

سید احمد دہلوی مرتب فرہنگ آصفیہ آگے لکھتے ہیں  تشنہ دینا، فعل متعدی، طعنہ دینا، لعنت ملامت کرنا، باتیں چھانٹنا۔

اس کے بعد کسی مزید حوالے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن یہ دکھانے کے لیے کہ اردو کے دوسرے لغات میں بھی یہ لفظ موجود ہے، میں دو حوالے اور دے رہاہوں۔ جامع اللغات میں ہے

’’طعنہ تشنہ‘‘ (مذکر) تشنہ، تشنیع کا مخرب ہے۔ لعنت ملامت، برابھلا (دنیا کے ساتھ) طعنے تشنے دینا یا سنانا (متعدی) برابھلا کہنا۔                                    (جامع اللغات ج۳)

فیروز اللغات میں ہے

طعنہ تشنہ (۱) مذکر، (تشنہ تشنیع کامخرب ہے) برابھلا، لعنت ملامت، طعنے تشنے (۱،مذکر) طعنہ تشنہ کی جمع۔ طعنے تشنے دینا یا سنانا (۱) برابھلا کہنا۔

فیروزاللغات میں (۱) ارد کی علامت ہے یعنی یہ الفاظ اردو زبان کے ہیں۔ یہ بات آپ کے علم میں ہوگی کہ کسی زبان میں جب کسی دوسری زبان کا لفظ لیاجاتا ہے تو کبھی وہ اپنی صحیح شکل میں مستعمل ہوتاہے اور کبھی اس کی اصل شکل بگڑجاتی ہے۔ اب یہ بگڑا ہوالفظ اسی زبان کالفظ بن جاتا ہے جس میں وہ لے لیاگیا ہے۔ یہ بھی دیکھیے کہ تشنیع کاعربی لفظ اردو میں مؤنث استعمال ہوتاہے۔ امید ہے کہ اتنی وضاحت کافی ہوگی۔ میں نےتبصرے میں جو اصلاح کی ہے وہ اردو زبان کے لحاظ سے کی ہے، عربی کے لحاظ سے نہیں۔                                        (جون ۱۹۷۵ء ج۵۴ ش۶)