طلاق

اگر کوئی شوہر بیک وقت تین طلاقیں دے تو کیا آپ کے نزدیک اسے قطعی طلاق مغلّظہ شمار کیا جائے یا تین طُہروں میں تین طلاقوں کے اعلان کے بغیر جیسا کہ قرآن میں ہدایت کی گئی ہے یہ مغلّظہ شمار نہ ہو؟
جواب

ائمہ اربعہ اور جمہور فقہا کا مسلک یہ ہے کہ تین طلاق اگر بیک وقت دیے جائیں تو وہ تین ہی طلاق شمار ہوں گے۔ اور میرے نزدیک یہی صحیح تر بات ہے، اس لیے میں یہ مشورہ نہیں دے سکتا کہ اس قاعدے میں کوئی تغیّر کیا جائے۔ لیکن یہ امر مسلّم ہے کہ ایسا کرنا گناہ ہے کیونکہ یہ اس صحیح طریقے کے خلاف ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے طلاق دینے کے لیے سکھایا ہے۔ اس لیے اس غلط طریقے کی روک تھام ضرور ہونی چاہیے۔ میری راے میں اس غرض کے لیے حسب ِذیل تدابیر مناسب ہوں گی:
الف- مسلمانوں کو عام طور پر طلاق کے صحیح طریقے سے واقف کرایا جائے، اس کی حکمتیں اور اس کے فوائد سمجھائے جائیں ، اور اس کے مقابلے میں طلاق بدعی کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے، نیز یہ بھی بتایا جائے کہ اس غلط طریقے سے طلاق دینے والا گناہ گار ہوتا ہے۔ یہ چیز تعلیم کے نصاب میں بھی شامل ہونی چاہیے، ریڈیو اور پریس کے ذریعے سے بھی نشر ہونی چاہیے اور نکاح ناموں کے ساتھ جو احکام منسلک ہوں ان میں بھی اسے درج ہونا چاہیے۔
ب- دستاویز نویسوں کو حکما ً تین طلاق کی دستاویز لکھنے سے منع کر دیا جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے جرمانہ مقرر کر دیا جائے۔
ج- بیک وقت تین طلاق دینے والوں کے لیے بھی سزاے جرمانہ مقرر کر دی جائے۔ اس کے لیے ہمارے پاس حضرت عمرؓ کے عمل کی نظیر موجود ہے۔ ان کا طریقہ یہ تھا کہ جب کبھی مجلس واحد میں تین طلاق دینے کا مقدمہ ان کے سامنے پیش ہوتا وہ طلاق کو نافذ کرنے کے ساتھ طلاق دینے والے کو سزا بھی دیتے تھے۔