جواب
بلاشبہہ فقہاے حنفیہ کی راے یہی ہے کہ ایسی صورت میں جس عورت سے بھی اس کا نکاح ہو گا، اس پر طلاق وارد ہوجائے گی۔ لیکن تما م ائمہ وفقہا کا اس بارے میں اتفاق نہیں ہے۔ امام شافعی ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒکی راے یہ ہے کہ طلاق کا حق نکاح کے بعد پیدا ہوتا ہے نہ کہ نکاح سے پہلے۔اگرکسی شخص نے یہ کہا ہو کہ وہ آئندہ جس عورت سے بھی نکاح کرے،اس کو طلاق ہے تو یہ ایک لغواور غیر مؤثر بات ہے۔اس سے کوئی قانونی حکم ثابت نہیں ہوتا۔یہی راے حضرت علیؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت جابر بن عبداﷲؓ ، حضرت ابن عباسؓ، اور حضرت عائشہؓ سے بھی منقول ہے۔({ FR 2086 }) اور اس راے کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ لَا طَلَاقَ اِلَّا مِنْ بَعْدِ نِکَاحٍ ({ FR 2087 }) ’’طلاق نہیں ہے مگر نکاح کے بعد‘‘۔ امام مالکؒ کی راے یہ ہے کہ اگر کسی خاص عورت یا خاص قبیلے یا خاص خاندان کی عورتوں کے بارے میں کوئی شخص ایسی بات کہے تب تو طلاق لازم آجائے گی، لیکن مطلقاً تمام عورتوں کے بارے میں یہ بات کہی جائے تو طلاق واقع نہ ہو گی۔({ FR 2187 }) کیوں کہ پہلی صورت میں تو یہ امکان باقی رہتا ہے کہ مرد اس عورت یا اس قبیلے کی عورت کے سوا دوسری عورتوں سے نکاح کر سکے۔ لیکن دوسری صورت میں ترک سنت کی قباحت لازم آتی ہے، اوریہ ایک حلال چیز کو اپنے اوپرمطلقاً حرام کرلینے کا ہم معنی ہے۔ اس مسئلے پرمزید تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سورۂ الاحزاب صفحہ ۷۳۔ ( ترجمان القرآن، جنوری۱۹۵۶ء)