جواب
اسلام کا مزاج بلاشبہہ بہت نازک ہے، مگر اﷲ تعالیٰ کسی انسان کو اس کی استطاعت سے زیادہ مکلف نہیں فرماتا۔ قرآن وحدیث میں جن چیزوں کے متعلق ذکر کیا گیا ہے کہ وہ عبادات کو باطل یا بے وزن کر دینے والی ہیں ،ان کے ذکر سے دراصل عبادات کو مشکل بنانا مطلوب نہیں ہے بلکہ انسان کو ان خرابیوں پر متنبہ کرنا مقصود ہے تاکہ انسان اپنی عبادات کو اُن سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے،اور عبادات میں وہ روح پیدا کرنے کی طرف متوجہ ہو جو مقصود بالذات ہے۔ عبادات کی اصل روح تعلق باﷲ، اخلاص ﷲ اور تقویٰ واحسان ہے۔اس روح کو پیدا کرنے کی کوشش کیجیے،اور ریا سے،فسق سے،دانستہ نافرمانی سے بچیے۔ان ساری چیزوں کا محاسبہ کرنے کے لیے آپ کا اپنا نفس موجود ہے۔وہ خود ہی آپ کو بتا سکے گا کہ آپ کی نماز میں ، آپ کے روزے میں ،آپ کی زکاۃ اور حج میں کس قدر اﷲ کی رضا جوئی اور اس کی اطاعت کا جذبہ موجود ہے،اور ان عبادتوں کو آپ نے فسق ومعصیت اور ریا سے کس حدتک پاک رکھا ہے۔یہ محاسبہ اگر آپ خود کرتے رہیں تو ان شاء اﷲ آپ کی عبادتیں بتدریج خالص ہوتی جائیں گی اور جتنی جتنی وہ خالص ہوں گی،آپ کا نفس مطمئن ہوتا جائے گا۔ابتداء ً جو نقائص محسوس ہوں ،ان کانتیجہ یہ نہ ہونا چاہیے کہ آپ مایوس ہوکر عبادت چھوڑ دیں ،بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ آپ اخلاص کی پیہم کوشش کرتے جائیں ۔
خبردار رہیے کہ عبادت میں نقص کا احساس پیدا ہونے سے جو مایوسی کا جذبہ اُبھرتا ہے،اُسے دراصل شیطان اُبھارتا ہے اور اس لیے اُبھارتا ہے کہ آپ عبادت سے باز آجائیں ۔ یہ شیطان کا وہ پوشیدہ حربہ ہے جس سے وہ طالبین خیر کو دھوکا دینے کی کوشش کرتا ہے۔لیکن ان کوششوں کے باوجود یہ معلوم کرنا بہرحال کسی انسان کے امکان میں نہیں ہے کہ اس کی عبادات کو قبولیت کا درجہ حاصل ہو رہا ہے کہ نہیں ۔ اس کو جاننا اور اس کا فیصلہ کرنا صرف اس ہستی کا کام ہے جس کی عبادت آپ کررہے ہیں ، اور جو ہماری اور آپ کی عبادتوں کے قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ہر وقت اس کے غضب سے ڈرتے رہیے اور اس کے فضل کے اُمید وار رہیے۔ مومن کا مقام بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَاء ({ FR 2180 })ہے۔ خوف اس کو مجبور کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ بہتر بندگی بجا لانے کی کوشش کرے۔ اور اُمید اس کی ڈھارس بندھاتی ہے کہ اس کا ربّ کسی کا اجر ضائع کرنے والا نہیں ہے۔
(ترجمان القرآن، جنوری،فروری۱۹۵۱ء)