جواب
عبادات کے بارے میں ان کے جو نظریات آپ نے بیان کیے ہیں ،وہ بھی سخت ژولیدہ فکری (confused thinking) بلکہ بے فکری کا نمونہ ہیں ۔شاید انھوں نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ نماز روزہ وغیرہ اعمال صرف اسی صورت میں برائی سے بچنے کا بہترین ذریعہ اور معاشرے کو صحیح ڈگر پر چلانے کا آلہ ہوسکتے ہیں جب کہ انھیں خلوص کے ساتھ کیا جائے،اور خلوص کے ساتھ آدمی ان پر اسی صورت میں کاربند ہوسکتا ہے جب وہ ایمان داری سے یہ سمجھتا ہو کہ خدا ہے اور میں اس کا بندہ ہوں اور محمد رسول اﷲ ﷺ واقعی اﷲ کے رسول تھے اور کوئی آخرت آنے والی ہے جس میں مجھے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ان سب باتوں کو خلاف واقعہ سمجھتا ہو اور یہ خیال کرتا ہو کہ محمد رسول اﷲ ﷺ نے محض اصلاح کے لیے یہ ڈھونگ رچایا ہے، تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس صورت میں بھی یہ عبادات برائی سے بچنے کا ذریعہ اور معاشرے کو صحیح ڈگر پر چلانے کا آلہ بن سکیں گی۔ ایک طرف ان عبادات کے یہ فوائد بیان کرنا اور دوسری طرف ان فکری بنیادوں کو خود ڈھا دینا جن پر ان عبادات کے یہ فوائد منحصر ہیں ،بالکل ایسا ہے جیسے آپ کسی کارتوس سے سارا گن پائوڈر نکال دیں اور پھر کہیں کہ یہ کارتوس شیر کے شکار میں بہت کارگر ہے۔ (ترجمان القرآن،جون۱۹۶۲ء)