(۲) ایک صاحب اپنی بہن سے ملنا چاہتے تھے۔چوں کہ اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہے تھے اس لیے خود ملنے نہیں جاسکتے تھے اور بہن بیوہ ہوگئی تھیں، عدت گزاررہی تھیں، اس لیے بہن بوجہ عدت اپنے بھائی سے نہ مل سکی اور بھائی کا انتقال ہوگیا۔
(۱) کیا عدت میں اتنی سختی ہے کہ ایسی مجبوری میں گھر سے باہر جانا حرام ہے؟
(۲) عدت جس مقصد کےلیے ہے کیا چار ماہ دس دن کی مدت میں ہی وہ مقصد پورا ہوگا؟ اگر دس پانچ دن باقی ہوں اور ایک گائوں سے دوسرے گائوں جانا پڑجائے تو کیا یہ حرام ہوگا؟
(۳) کیا عدت میں عمرکافرق نہیں ہے؟ ایک عورت بیس پچیس سال کی ہے اور ایک ساٹھ سال کی ہے؟ کیا دونوں کے لیے پابندی برابر ہے؟
(۴) جس عورت نے اپنا آپریشن کرالیا ہے اب وہ اس قابل نہیں کہ بچہ پیدا کرسکے تو کیا اس کے لیےبھی عدت ضروری ہے؟
(۵) ایک بانجھ عورت جس کے بچہ پیداہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیا وہ بھی بیوہ ہوجانے کے بعد عدت پوری کرے؟
جواب
آپ کے جوابات دینے سے قبل ضروری ہےکہ دوبنیادی باتیں پہلے بتادی جائیں۔ پہلی بنیادی بات یہ سمجھ لیجیے کہ عدت کسی عالم دین یا فقیہ نے مقرر نہیں کیا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مقر ر کی ہے۔ اللہ کے فضل سے ہم اور آپ قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں اس لیے ہمارا فرض یہ ہے کہ اس کے احکام کی تعمیل کریں چاہے حکمت ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہے۔ دوسری بنیادی بات یہ سمجھ لیجیے کہ عدت کامقصد صرف یہ معلوم کرنا نہیں ہے کہ عورت کو حمل ہے یا نہیں، بلکہ ایک شرعی حکم ہے جس کو بجالاناضروری ہے چاہے عورت کی عمر اتنی ہو کہ حمل کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتاہو۔ مثلاً نابالغ لڑکی یا بہت بوڑھی عورت۔
میں آپ کے مطالعہ کے لیے آیتوں کے حوالے یہاں دے رہاہوں۔ کسی عالم دین سے مدد لے کر آپ ان کو سمجھ سکتے ہیں۔
(۱) طلاق کی عدت
شوہر اگر بیوی کو اس سےملنے اورچھونے کے بعد طلاق دے تو عدت کی دوقسمیں ہیں ۱-حیض ۲- مہینے۔ اگر مطلقہ کو حیض آتا ہو تو اس کی عدت سورۂ بقرۃ آیت ۲۲۸ میں بیان ہوئی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ایسی عورت کی عدت تین حیض ہے۔ تین حیض آجانے کے بعد (خواہ تین مہینے میں آئے یا اس سے زیادہ میں ) عدت پوری ہوجاتی ہے......اگر مطلقہ ایسی لڑکی ہے جس کو ابھی حیض آیا ہی نہ ہو یا ایسی بوڑھی ہو جس کا حیض بند ہوچکا ہو اوراس کی عمر گزرچکی ہو تو اس کی عدت کا بیان سورۃ الطلاق آیت ۴ میں ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ایسی عورت (نابالغ یا سن رسیدہ) کی عدت تین مہینے ہے۔ قمری مہینوں کے حساب سے تین مہینے گزرجائیں تو عدت پوری ہوجائے گی۔
(۲) وفات کی عدت
شوہر اگرمرجائے تو اس کی عدت کابیان سورۂ بقرۃ آیت ۲۳۴ میں ہے اور وہ یہ ہے کہ عورت چار مہینے دس دن عدت گزارے گی خواہ وہ عورت نابالغ لڑکی ہو، جوان ہو یا بوڑھی ہو۔
(۳) وضع حمل
عدت کی ایک قسم وضع حمل ہے۔ یعنی بچہ پیدا ہوجانا۔ یہ عدت حاملہ عورت کی ہے۔ اگر شوہر نے بیوی کو اس حالت میں طلاق دی تو اس کی عدت اس وقت پوری ہوگی جب بچہ پیداہو جائے۔ اسی طرح کسی عورت کا شوہر مرگیا اور وہ حاملہ تھی تو بچہ پیدا ہونے کے بعد عدت پوری ہوگی۔ اس میں مہینوں کی قیدنہیں ہے۔ اگر طلاق دینے کےایک دن بعد بچہ پیدا ہوجائے تو شوہر کی وفات کے ایک دن بعد عدت پوری ہوجائے گی ـــــــاس تفصیل میں آپ کے جوابات موجود ہیں، مگر میں صراحتاً ہی جواب دیتاہوں
(۱) اگر شریعت کے حکم پر عمل کرنے کی وجہ سے بھائی سے ملاقات نہ ہوسکی اور بہن کو ذہنی تکلیف ہوئی تو ان شاء اللہ اس کو اس ذہنی تکلیف کا بھی اجر ملے گا۔
(۲) وفات کی عدت اللہ نے مقرر کی ہے اور وہی اس کی حکمت جانتا ہے۔ کسی کو اس میں کمی بیشی کا حق حاصل نہیں ہے۔ ہمیں تو اس کے حکم کی تعمیل کرنی ہے۔ وفات کی عدت میں عورت کے لیے رات کا بڑا حصہ اس گھر میں بسر کرنا ضروری ہے جس میں شوہر کی وفات ہوئی ہے۔ حصول معاش کے لیے اگر دن کے وقت اس کو گھر سے باہر جانا پڑے تو جاسکتی ہے۔ رات کے وقت اس گھر میں واپس آجائے۔
(۳) عدت گزارنے میں شریعت نے عمر کا کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔ آپ شاید یہ سمجھے ہوئےہیں کہ عدت کامقصد صر ف یہ معلوم کرنا ہے کہ عورت کو حمل ہے یا نہیں ؟ آپ کا یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ عدت کا مقصد اس سے زیادہ وسیع ہے۔
(۴) جی ہاں، اس عورت کو بھی عدت گزارنی ہوگی۔
(۵) جی ہاں، بانجھ عورت کو بھی عدت گزارنی پڑے گی۔
جیسا کہ اوپر گزرا کہ عدت گزارنا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، اس کی تعمیل ضروری ہے۔ جو عورت اللہ کے حکم کی تعمیل میں عدت گزارے گی وہ اجرپائے گی اور جو خلاف ورزی کرے گی اس کو سزاملے گی۔
(مئی ۱۹۸۴ء ج۷۲ ش ۵)