عربی بطورِ قومی وسرکاری زبان

ایک صاحب کا انگریزی مضمون ارسال خدمت ہے،جو اگرچہ مسلم لیگ کے حلقے میں ہیں لیکن اسلامی حکومت کے لیے آواز اُٹھاتے رہتے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ اسلام کے منشا کے مطابق تبدیلی آئے۔فی الحال یہ ایک خاص مسئلے پر متوجہ ہیں ۔ یعنی اپنی پوری کوشش اس بات پر صرف کررہے ہیں کہ پاکستان کی سرکاری ملکی زبان بروے دستور عربی قرار پائے۔ان کے دلائل کا جائزہ لے کر اپنی راے سے مطلع فرمایئے۔ محولہ بالا مضمون درج ذیل ہے: ’’پاکستان کی قومی زبان کے مسئلے کا فیصلہ مستقبل قریب میں ہونے والا ہے۔ میری التجا یہ ہے کہ آپ عربی زبان کے حق میں آواز بلند کرنے پر پوری توجہ صرف کریں ۔یہ معاملہ اسلام اور پاکستان کے لیے بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے، اور اگر آپ میری ان سطور کو اپنے مؤقر جریدے میں شائع فرما دیں تو میں بہت شکر گزار ہوں گا۔ عربی زبان کلام الٰہی یعنی قرآن شریف کی زبان ہے اور قرآن شریف ہی پر سارے اسلام کا دارو مدار ہے۔اس لحاظ سے تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے عربی سیکھنا ضروری ہے۔ پیغمبر اسلامﷺ کے ارشاد کے بموجب عالم آخرت کی زبان بھی عربی ہوگی۔پھر اسلام کے سارے سرمایۂ روایات کے علمی مآخذ عربی زبان ہی میں ملتے ہیں ۔ بجاے خود عربی زبان دنیا کی زندہ کثیر الاستعمال اور وسیع الظرف زبانوں میں سے ہے۔پھر عرب،مشرق وسطیٰ اور افریقا کی تمام اسلامی حکومتوں اور بحیرۂ روم کے آس پاس یورپ کے بعض علاقوں کی، جو اکثریت کے لحاظ سے مسلم علاقے ہیں ، عربی ہی سرکاری اور قومی زبان ہے۔علاوہ بریں قرآن شریف کے واسطے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک بشمول پاکستان عربی سے شناسا ہے۔ عربی زبان بحیثیت ایک تمدنی ذریعۂ ربط کے وسیع استعداد رکھتی ہے اور ہر قسم کی سائنٹی فِک، فنی اور عام اصطلاحات ومصطلحات کو اپنے اندر جذب کرسکتی ہے۔ اُردو اور فارسی کو بھی اس معاملے میں بیش تر عربی کا دست نگر ہونا پڑتا ہے۔ جیسا کہ زاہد حسین گورنر اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے عربی کو پاکستا ن کی سرکاری زبان بنانے کی دعوت دیتے ہوئے زیادہ وضاحت سے بتایا تھا۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کا خدا ایک ہے، ان کی آسمانی کتاب ایک ہے،اور وہ بحیثیت مجموعی ملت واحدہ ہیں ۔ لہٰذا بالکل اسی طرح ان کی قومی زبان بھی ایک ہی —یعنی عربی — ہونی چاہیے۔چاہے وہ کئی مختلف زبانیں بولتے ہوں ۔ ملت اسلامیہ کی ترکیب کا دارومدار ہی تنوعات میں یک جہتی پیدا ہونے پر ہے۔ قرارداد مقاصد پاکستان کے دستور کا اصل الاصول قرارپاچکی ہے۔اس کے تحت بنیادی اُصولوں کی کمیٹی نے بالکل بجا طور پر مسلمانوں کے لیے قرآن کی لازمی تعلیم کی سفارش کی ہے۔خود یہ سفارش منطقی طور پر عربی زبان کو پاکستان کی قومی زبان بناے جانے کو لازم قرار دیتی ہے۔ اس فیصلے سے پاکستان کے ہر حصے کے مسلمانوں میں ایک روحِ تازہ دوڑ جائے گی، اور بالآخر یہ چیز پاکستان —دنیا کی عظیم ترین مسلم مملکت — کو ملت اور عالم اسلام کی سیاسی تنظیم میں شایان شان حصہ ادا کرنے اور ممتاز مقام حاصل کرنے کی ضامن ہوگی۔ یہ اس صورت میں ناممکن ہے جب کہ کسی دوسری زبان کو قومی زبان قرار دیا جائے۔ سرکاری زبان کو بدلنے کا معاملہ بڑا بھاری معاملہ ہے۔انگریزی زبان کو ہندستان میں سرکاری زبان کی حیثیت سے اپنی جگہ پیدا کرنے میں کئی سال لگے۔ اب پاکستان کو اپنی نئی سرکاری زبان اختیار کرنے کے لیے بھی وہی صورت پیش آئے گی۔چاہے وہ کوئی سی زبان بھی ہو۔ ہمارے لیے اب قرین مصلحت یہی ہے کہ ہم ذرا سی دُور اندیشی سے کام لیں اور اس زبان کے حق میں فیصلہ کریں جو ہماری سرزمین کے لیے زیادہ سے زیادہ راس آنے والی ہے اور بلحاظ نتائج بعید کے زیادہ مفید ثابت ہونے والی ہے۔ عربی زبان طباعت، سٹینو گرافی اور ٹائپ کے پہلو سے خوب اچھی طرح فروغ یافتہ سہولتیں رکھتی ہے۔مادری زبانوں کو درکنار رکھ کر دیکھا جائے تو مسلمان عوام دوسری زبان کے مقابلے میں عربی کے لیے امتیازی جذبہ احترام رکھتے ہیں ۔ہمیں کبھی عوام کے جذبات کو نظر انداز نہ کرنا چاہیے۔ پھرجب کہ مسلم ممالک —جو زیادہ تر عربی بولنے والے ہیں — کا متحدہ بلاک بنانے کی اسکیم پیش نظر ہے،تو پاکستان عربی کو اپنی سرکاری زبان قرار دے کر اس معاملے میں اپنا حصہ اداکرنے کے لیے زیادہ بہتر مقام پیدا کرسکتاہے۔دنیا بھر کی مسلمان مملکتوں کی لنگوا فرنکا[lingua franca] اگر کوئی زبان ہے اور ہو سکتی ہے تو وہ صرف عربی ہے۔ پھر ہر سال کی تقریب حج اسلام کی پانچ بنیادی عبادات میں سے ایک ہے جو بحیثیت ایک فریضے کے دنیا بھر کے ذی استطاعت مسلمان سرانجام دیتے ہیں ۔سالانہ حج اور مسلمانوں کی دوسری ہنگامی کانفرنسوں کے موقع پر کسی دقت اور غیر ضروری خرچ کے بغیر تما م مسلمان ممالک کے درمیان خیالات وافکار کا تبادلہ اور کاروباری تعلقات کا استحکام عربی زبان جاننے ہی کی صورت میں ہوسکتا ہے۔ پھر یہ کہ مصر،شام اور لبنا ن کے عیسائیوں اور یہودیوں کی طرح ہمارے غیر مسلم ہم وطنوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کہ پاکستان کی سرکاری زبان عربی ہو۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ اُردو کو عربی پر ترجیح دیں ،جب کہ ان کو مغل دور میں فارسی کے خلاف اور ماضی قریب میں انگریزی کے خلاف کوئی شکایت نہ پیدا ہو ئی۔ عربی زبان پاکستان کی سرکاری زبان قرار پاکر پاکستان کی علاقائی زبانوں ،ان کے رسم الخط اور مستقبل میں صحیح خطوط پر ان کے ارتقا کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ علاوہ بریں عربی زبان اختیا ر کرنے سے پاکستان بھر میں ہمارے بچوں کے لیے تعلیمی بوجھ میں نمایاں کمی آجائے گی۔ کیوں کہ اس صورت میں ان کے لیے صرف اپنی مادری زبان کی تعلیم حاصل کرنا لازمی ہوگا، اور مزید کسی زبان کو سیکھنا چاہیں تو یہ ان کا اپنا اختیاری معاملہ ہوگا۔اُردو یا کسی دوسری علاقائی زبان کو اگر پاکستان کی قومی زبان بنایا گیا تو اُن کے کندھوں پرسہ گونہ بار آپڑے گا۔کیوں کہ عربی تو ہرحال میں مسلمان خاندانوں میں گھریلو طور پر پڑھی جائے گی۔ برعکس اس کے اگر خالص جمہوری نقطۂ نظر سے پاکستا ن کی زبان کا تعین کیا جائے تو پھر بنگالی جوپاکستان کی۶۰ فی صدی آبادی کی زبان ہے،اپنے آ پ کو غور کے لیے سب سے پیش پیش رکھنے کی مستحق ہے۔اُردو ایک محدود گروہ میں بولے جانے کی وجہ سے سندھی،پنجابی اور پشتو سے زیادہ قابل لحاظ نہیں ہوسکتی جن کے بولنے والے اپنی بولیوں سے کچھ کم محبت نہیں رکھتے۔اس کا لحاظ رہے کہ اُردو پاکستان کے کسی صوبے میں خصوصی طور پر نہیں بولی جاتی۔اندریں حالات عربی زبان ہی اس کا وسیلہ ہوسکتی ہے کہ ہم ہر دو خطوں کے لوگ پاکستانی وحدت اسلامیہ کے وسیع تقاضوں کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی علاقائی زبانوں کی علم برداری سے دست بردار ہوجائیں ۔‘‘
جواب

مسلمانوں کے لیے عربی زبان کی اہمیت ناقابل انکار ہے۔ہم خود یہ چاہتے ہیں کہ عربی زبان ہی کو نہیں بلکہ قرآن مجید کی تعلیم کو بھی ملک کی تمام درس گاہوں میں لازمی کردیا جائے۔ہمیں عربی کی بین الاقوامی۱ ور بین الاسلامی اہمیت بھی معلوم ہے، اور اس کا لحاظ رکھنا بھی ہم ضروری سمجھتے ہیں ۔ لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی اس کے لیے دلیل نہیں ٹھیرائی جاسکتی کہ پاکستان کی قومی زبان یا سرکاری زبان عربی قرار دی جائے۔ ایک ملک کی قومی اور سرکاری زبان صرف وہی زبان ہوسکتی ہے جس کو اس ملک کے عام باشندے ملک کے ہر حصے میں جانتے اور سمجھتے ہوں ۔یہ درجہ عربی کو سردست حاصل نہیں ہے، نہ یہ درجہ اسے آسانی کے ساتھ حاصل ہوسکتا ہے۔اگر ہم ان کوششوں کو دیکھیں جو ایک صدی تک انگریزی حکومت نے ہندستان میں اپنی زبان کو سرکاری زبان کی حیثیت سے رائج کرنے میں صرف کیں اور پھر یہ دیکھیں کہ ملک کی۵-۷فی صدی سے زیادہ آبادی کو وہ انگریزی سمجھنے کے قابل نہ بنا سکی تو صاف معلوم ہوجائے گا کہ ہم انگریزوں سے کم ازکم دس گنی زیادہ کوشش کرکے آئندہ ایک صدی میں اس لائق ہوسکیں گے کہ عربی زبان کو یہاں ایک کام یاب قومی زبان بنادیں ۔
اس کے برعکس اُردو زبان کو یہ حیثیت بہت بڑی حد تک پہلے ہی سے حاصل ہے۔جہاں تک مغربی پاکستان کا تعلق ہے،یہ زبان اس کے ہر حصے میں سمجھی جاتی ہے، اور سرحد، کشمیر، سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے لوگ جب کبھی آپس میں ملتے ہیں ،یہی زبان استعمال کرکے ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرتے ہیں ۔ میں نے اپنے دوروں کے سلسلے میں بلوچستان کے انتہائی سرے پر بلوچ دیہاتیوں کے سامنے اُردو میں تقریر کی اور پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ تقریر کو بلاتکلف سمجھ گئے ہیں ۔ میں نے اَن پڑھ سندھیوں کے سامنے بھی تقریر کی ہے،وہ بھی میری بات بآسانی سمجھتے رہے۔ صوبۂ سرحد میں تو آزاد قبائلی علاقوں تک کے لوگ اچھی طرح اُردو سمجھ اور بول لیتے ہیں ۔ رہا مشرقی پاکستان، تو مجھے ابھی تک براہ راست وہاں کے حالات کا علم نہیں ہے،مگر میں سمجھتا ہوں کہ مغربی پاکستان کے برابر نہ سہی،تاہم وہاں کے بھی عام باشندے انگریزی اور عربی دونوں کی بہ نسبت اُردو سے زیادہ شناسا ہیں ۔ایک اُردو بولنے والا آدمی مشرقی بنگال کے کسی حصے میں بھی اس قدر اجنبی نہیں ہوسکتا جس قدر اجنبی ایک ایسا شخص ہوسکتاہے جو صرف انگریزی یاصرف عربی جانتا ہو۔اور اسی طرح مشرقی پاکستان کا ایک عام آدمی مغربی پاکستان آکر جس زبان کے ذریعے سے یہاں کے عوام سے بات چیت کرسکتا ہے،وہ نہ انگریزی ہے نہ عربی،بلکہ صرف اُردو ہے۔
یہ حیثیت اُردو کو اس وقت بھی حاصل ہے جب کہ یہ زبان ابھی سرکاری زبان نہیں قرار پائی ہے۔اب اگر اسے سرکاری زبان قرار دے کر اس کی ترویج کے لیے کوشش کی جائے تو ہم بہت کم محنت کے ساتھ بہت کم وقت میں اسے اتنا عام کرسکتے ہیں کہ یہ ہماری ان تمام ضرورتوں کوبا ٓسانی پورا کرسکتی ہے جو ایک قومی اور سرکاری زبان سے وابستہ ہوتی ہیں ۔
مجھے صاحب مضمون کے اس خیال سے اتفاق نہیں ہے کہ اگر پاکستان کی سرکاری زبان کا انتخاب محض جمہوری بنیاد پر کرنا ہے تو پھر بنگالی کا حق مرجح ہے۔کیوں کہ یہ۶۰فی صدی پاکستان کی زبان ہے۔محض سروں کو گن کر کسی معاملے کا فیصلہ کرنا جمہوریت نہیں ہے۔سوال یہ ہے کہ بنگالی ہو یاپشتو یاپنجابی یا سندھی،ان میں سے کسی زبان کو بھی اس حالت میں قومی زبان کیسے بنایا جاسکتا ہے جب کہ اس زبان کے بولنے اور سمجھنے والے صرف اپنے علاقوں تک ہی محدود رہیں ، اور دوسرے علاقوں کے لیے یہ زبانیں اتنی ہی اجنبی ہیں جتنی دنیا کی کوئی دوسری زبان ہوسکتی ہے؟ہم جس زبان کو قومی زبان بنانا چاہتے ہیں وہ پاکستان کے کسی حصے کی بھی مادری زبان نہیں ہے۔مگر پاکستان کے ہر حصے میں کم وبیش عام لوگ اس سے واقف ہیں اور مختلف صوبوں کے عوام باہمی میل جول میں اس کو استعمال کرتے اور کرسکتے ہیں ۔اس کے مقابلے میں نہ بنگالی کو ترجیح دی جاسکتی ہے،نہ پنجابی کو،نہ سندھی کو یا پشتو یا بلوچی کو۔ اگر سرشماری پر ہی فیصلہ کرنا ہے تو اس لحاظ سے کیجیے کہ کس زبان کے سمجھنے والے پاکستان میں سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں ۔
بلاشبہہ یہ مشکل بہت وزن رکھتی ہے کہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کو بنگلا زبان مقامی زبان کی حیثیت سے سیکھنی ہوگی، عربی دینی زبان کی حیثیت سے،انگریزی بین الاقوامی ضرورتوں کے لیے،اور پھر اُردو سرکاری زبان کی حیثیت سے۔ ہم اس معاملے میں ان کی مشکلات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔لیکن یہی مشکل سندھیوں اور پشتو اور بلوچ علاقے کے لوگوں کو بھی پیش آئے گی۔اس کا بار تنہا مشرقی پاکستان کے لوگوں ہی پر نہیں پڑے گا۔ اب ہمیں موازنہ کرکے دیکھ لینا چاہیے کہ عربی کو بالکل نئے سرے سے قومی زبان کی حیثیت سے رائج کرنا زیادہ مشکل ہے یا اس زبان کو رائج کرنا جو پہلے بھی اس ملک کے ہر گوشے میں کافی پھیلی ہوئی ہے۔ان دونوں میں سے جو مشکل کم ہو، اسے اختیار کرلیجیے۔
میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ اﷲ کا فضل ہے کہ اس نے مشرقی اور مغربی پاکستان جیسے دُور دراز خطوں کے درمیان اسلام کے بعد ایک اور اتحادی رشتہ بھی اُردو زبان کی شکل میں مہیا کررکھا ہے۔ اس نعمت کی قدر نہ کرنا ایک طرح کی ناشکری ہے۔البتہ یہ غلط فہمی نہ ہو کہ میں صرف اُردو کو سرکاری زبان بنانے کا حامی ہوں ۔میرے نزدیک اُردو بنگالی کے جھگڑے کا یہ بہت اچھا حل ہے کہ دونوں سرکاری زبانیں قرار دی جائیں ۔ (ترجمان القرآن، مارچ تا مئی ۱۹۵۱ء)