عربی قرآن پر ایمان اور اس سے استفادہ

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِيُبَيِّنَ لَہُمْ({ FR 2230 })(ابراھیم:۴) پڑھ کر یہ سوچتا ہوں کہ ہماری اور ہمارے آبائ و اجداد کی زبان عربی نہیں تھی۔پھر قرآن کے عربی ہونے پر ہم کیوں نبی ﷺ کے اتباع کے مکلف ہیں ؟
جواب

آپ کا مطلب غالباً یہ ہے کہ ہر قوم صرف اسی دعوت پر ایمان لانے کی مکلف ہونی چاہیے جو اس کی اپنی زبان میں دی گئی ہو۔ دوسری کسی زبان میں آئی ہوئی دعوت،اگرچہ وہ حق ہو، اگر چہ وہ من جانب اﷲ ہو،اگرچہ وہ ترجموں ، تفسیروں ، تشریحوں اور عملی نمونوں کے ذریعے سے آپ تک پہنچ جائے، پھر بھی وہ واجب الاتباع نہ ہونی چاہیے، کیوں کہ وہ آپ کی اپنی زبان میں نہیں بھیجی گئی ہے۔ اگر یہی آپ کا مطلب ہے تو یہ محض ایک غلط فہمی ہے جو مذکورہ بالا آیت کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے سے پیدا ہوگئی ہے۔ آیت کا مقصد دراصل یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے جب کسی قوم میں کوئی رسول بھیجا ہے،قطع نظر اس سے کہ وہ رسول خاص اسی قوم کے لیے ہو یا تمام دنیا کے لیے،بہرحال اس نے اپنے اوّلین مخاطب لوگوں کو ان کی اپنی زبان ہی میں خطاب کیاہے، تاکہ وہ اس کی بات کو اچھی طرح سمجھ سکیں اور ان کو یہ حجت پیش کرنے کا موقع نہ ملے کہ’’زبانِ یارِ من ترکی ومن ترکی نمی دانم‘‘({ FR 2077 })۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر قوم کے لیے لازماً الگ ایک مستقل نبی ہی آنا چاہیے جو اس کو اس کی اپنی زبان ہی میں خطاب کرے۔ اور نہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر ایک قوم کو دوسری قوم کے اہلِ ایمان اس کی اپنی زبان میں قابلِ فہم طریقے سے خدائی تعلیم پہنچا دیں ،تب بھی وہ محض اس بِنا پر اسے ردّ کردینے میں حق بجانب ہو کہ نبی خود براہِ راست خدا کی کتاب اس کی زبان میں لے کر نہیں آیا ہے۔ یہ بات نہ اس آیت میں کہی گئی ہے اور نہ اس کے الفاظ میں ایسی کوئی گنجائش ہے کہ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکے۔ آخر کون سی معقول وجہ اس بات کے لیے پیش کی جاسکتی ہے کہ جس شخص کو قرآن کی تعلیم کا لُبِّ لباب اس کی مادری زبان میں واضح طورپر پہنچ گیا ہو،وہ اس پر ایمان نہ لانے میں حق بجانب ہو؟
(ترجمان القرآن، جولائی،اکتوبر ۱۹۴۴ء)