ایک صاحب عزل کے بارے میں کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے کثیر العیالی سے بچنے کےلیے ایک صاحب کو عزل کا طریقہ بتایا تھا۔ صحیح واقعہ سے آپ مطلع فرمائیں۔
جواب
عزل کے بارے میں انھوں نے حضور اکرمﷺ کی طرف جو بات منسوب کی ہے اس کا پورا حوالہ ان سے دریافت کیجیے۔ جہاں تک مجھے علم ہے عزل کے سلسلے میں دوطرح کی صحیح حدیثیں آتی ہیں۔ ایک سے معلوم ہوتا ہے کہ عزل حرام ہے اور دوسری سے معلوم ہوتا ہے کہ جائز ہے۔ لیکن مجھے کسی ایسی حدیث کاعلم نہیں ہے جس میں آپ نے کثیر العیالی سے بچنے کے لیے کسی کو عزل کا طریقہ بتایا ہو۔ اگر حوالہ معلوم ہو تو تحقیق کی جائے۔ (فروری ۱۹۷۷ء ج۵۸ ش ۲)
نس بندی کے عدم جواز پرشرعی دلائل
مفلسی اور اندیشۂ مفلسی دونوں حالتوں میں قتل اولاد کی حرمت قرآن مجید سے ثابت ہے۔ سورۃ الانعام آیت ۱۵۱ میں فرمایا گیاہے
وَلَا تَقْتُلُوْا اَوْلَادَکُمْ مِنْ اِمْلَاقٍ، نَحْنُ نُرْزُقُکُمْ وَاِیَّاھُمُج۔
’’اور مفلسی کی وجہ سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں انھیں بھی دیں گے۔‘‘
اور سورۃ نبی اسرائیل آیت ۳۱ میں ارشاد ہواہے
وَلَا تَقْتُلُوْااَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ ط نَحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَاِیَّاکُمْ اِنَّ قَتْلَھُمْ کَانَ خِطَا کَبِیْرًاO
’’اور مفلسی کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ ہم انھیں بھی رزق دیتے ہیں اورتمھیں بھی۔ بلاشبہ ان کا قتل بڑا سخت گناہ ہے۔‘‘
پہلی آیت میں فقروافلاس کی حالت میں قتل اولاد سے منع کیاگیا ہے اور دوسری آیت میں اندیشۂ فقر کی حالت میں قتل اولاد کو گناہ کبیرہ قرار دیاگیا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ دونوں آیتوں میں یہ حقیقت ذہن نشین کی گئی ہے کہ رازق اللہ تعالیٰ ہے، تم نہیں ہو۔ تمہارا رازق بھی وہی ہے اور تمہاری اولاد کا رازق بھی وہی ہے۔ اگر تم اپنے آپ کو اپنی اولاد کا رازق سمجھتے ہوتو غلط سمجھتے ہو۔
(۱) سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان آیتوں سے نس بندی کے عدم جواز پر استدلال کرنا صحیح ہے یا نہیں ؟
میرا جواب یہ ہے کہ ان آیتوں سےاستدلال بالکل صحیح ہے۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ان آیتوں میں صرف پیدا شدہ اولاد کو قتل کرنے کی ممانعت ہے۔ اس میں استقرار حمل کو روکنے کی ممانعت نہیں ہے۔ اور منع حمل پر قتل اولاد کا اطلاق صحیح نہیں۔ اس لیے ان آیتوں کو نس بندی کی حرمت کے لیے دلیل بنانا غلط ہے۔
ایسا سمجھنے اور کہنے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان لوگوں کی نظروں سے ممانعت کا پس منظر اوجھل ہوگیا ہے حالاں کہ وہ قرآن میں صراحتاً مذکور ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ منع حمل پر قتل کا اطلاق صحیح ہے یا نہیں ؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ نس بندی کی ممانعت ان آیتوں سے ثابت ہوتی ہے یا نہیں ؟
فقر اور اندیشۂ فقر کو ان آیتوں میں قتل اولاد کا محرک قراردیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کسی غلط خیال یا غلط محرک کی وجہ سے کوئی فعل ممنوع قراردیا گیا ہو تو دوسرا وہ فعل بھی ممنوع ہوگا جو اس غلط خیال اور غلط محرک کی وجہ سے کیا جائے۔ اگر اندیشۂ فقر کی وجہ سے پیدا شدہ بچہ کو قتل کرنا حرام ہے تو اس اندیشہ کی وجہ سے بچے کی پیدائش کو روکنا بھی یقیناً ممنوع ہوگا اور اگر قوت تولید کو ختم کرنے کا فعل کیاجائے تو وہ بدرجہ اولیٰ ناجائز ہوگا۔
دوسری بات جوان لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوگئی ہے وہ یہ ہے کہ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب تم بچوں کےرازق نہیں ہو، سب کا رازق میں ہوں تو آخر تم اپنے بچوں کو کیوں قتل کرتے ہو؟ اللہ نے اپنی رزاقیت کو قتل اولاد کے ممنوع ہونے کی علت قراردیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جس فعل میں اس عقیدۂ رزاقیت سے انحراف ہورہاہو وہ بھی ممنوع ہوگا۔ کیا نس بندی سے اس عقیدہ پرزد نہیں پڑتی؟
اس حقیقت کوکہ رزق کی کنجی تمام تر اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق وسیع کردیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے اسے سمیٹ دیتاہے۔ قرآن میں بہت دفعہ دہرایا گیا ہے۔ اس لیے تمام ایسی تدابیر اور تمام ایسے افعال واعمال ممنوع ہوں گے جن سے اس عقیدے پر حرف آتاہو۔
(۲) بخاری ومسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کون ساگناہ سب سے بڑا ہے؟ حضورﷺ نے جواب دیا یہ کہ تم کسی کو اللہ کا جس نے تمہیں پیداکیا ہے، مدِّ مقابل قراردو۔ انھوں نے پوچھا کہ اس کے بعد پھر کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کردو کہ وہ تمہارے ساتھ کھانے میں شریک ہوجائے گی۔
(تفسیر مظہری، ج۵ ص۴۳۶)
اس حدیث میں شرک کے بعد قتل اولاد کو سب سے بڑا گناہ قراردیا گیا ہے اور اس میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ بہت وسیع ہیں ’’مخافۃ ان تطعم معک۔ ‘‘
اس حدیث میں اندیشہ فقر کی بات نہیں کہی گئی ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہا گیا ہے کہ کھانے میں شریک ہوجانے کے خوف سے اولاد کو قتل کرنا، شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔ بچوں کی پیدائش پراگر اس خیال سے روک لگائی جارہی ہو کہ اس سے معیار زندگی پست ہوجائے گا یا اونچے معیار زندگی میں خلل واقع ہوگا تو یہ فعل اس حدیث کی روسے گناہ قرارپاتاہے۔
(۳) صحیح احادیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان بن مظعونؓ کو تبتل یعنی بیوی سے کنارہ کشی یا نکاح سے کنارہ کشی سے منع فرمایا۔ اسی طرح صحیح احادیث میں آتا ہے کہ آپ نے صحابہؓ کو خصی ہونے سے منع فرمایا۔ ظاہر ہے کہ نس بندی اختصا ہی کی قسم میں داخل ہے کیوں کہ دونوں کا حاصل ایک ہے یعنی بچوں کی پیدائش کاخاتمہ۔
(۴) یہ تو اس بات کے دلائل تھے کہ نس بندی کراکے بچوں کی پیدائش کاخاتمہ کرنا شرعاً ممنوع اور ناجائز ہے۔ اب یہ دیکھیے کہ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے نبی ﷺ نے تکثیر اولاد کی ترغیب دی ہے۔
حضرت معقل بن یسارؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا
تزوجوا الولود الودود فانی مکاثربکم الامم (ابواودائود،نسائی، مشکوٰۃ، ص۲۶۷)
’’تم محبت کرنے والی اور کثرت سے بچے جننے والی سے شادی کرو۔ کیوں کہ میں تمھاری کثرت کے ذریعہ (قیامت میں ) دوسری امتوں پر فخر جتائوں گا۔‘‘
قرآن میں بھی مسلمانوں کو طلب اولاد کا حکم دیاگیا ہے۔ سورۃ البقرۃ، آیت ۱۸۷ میں ہے
فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغَوُا مَاکَتَبَ اللہُ لَکُمْ
’’پھر ملواپنی عورتوں سے اور طلب کرو اس کو جو لکھ دیاہے اللہ نے تمہارے لیے۔‘‘
مولاناشبیراحمد عثمانی ؒ اس آیت کے حاشیے میں لکھتے ہیں
’’یعنی جو اولاد تمہارے لیے اللہ نے مقدر فرمادی ہے عورتوں کی مباشرت سے وہ مطلوب ہونی چاہیے۔ محض شہوت رانی مقصود نہ ہواور اس میں عزل کی کراہت او رلواطت کی ممانعت کی طرف بھی اشارہ ہے۔‘‘
مدارک التنزیل میں اس آیت کے تحت لکھاگیاہے
واطلبوا ماقسم اللہ لکم واثبت فی اللوح من الولد بالمباشرۃ ای لا تباشروا لقضاء الشھوۃ وحدھا ولکن لا بتغاء ماوضع اللہ لہ النکاح من التناسل۔
(مطبوعہ مصر ص۷۵)
’’مباشرت کے ذریعہ جو اولاد اللہ نے لوح محفوظ میں تمہارے لیے مقرر کردی ہے اسے طلب کرو۔ یعنی محض شہوت پوری کرنے کے لیے مباشرت نہ کرو بلکہ اللہ نے نکاح کو جس توالدوتناسل کے لیے وضع کیا ہے اس کی طلب کے لیے مباشرت کرو۔‘‘
تفسیر جلالین کے حاشیے میں ہے
والمعنی ان المباشرۃ ینبغی ان یکون غرضہ الولد فانہ الحکمۃ من خلق الشھوۃ وشرع النکاح۔
’’آیت کامطلب یہ ہےکہ مباشرت کی غرض اولاد ہونی چاہیے۔ کیوں کہ شہوت کی تخلیق اور نکاح کی مشروعیت کی حکمت طلب اولاد ہی ہے۔‘‘
تقریباً یہی باتیں علامہ ثناء اللہ پانی پتی نے اپنی تفسیر مظہری میں لکھی ہیں۔ قرآن وحدیث کے مطالعہ او رعلماء کی تصریحات سے معلوم ہوتاہے کہ نکاح وجماع کی مشروعیت کی غرض وغایت ہی طلب ولد اور بقاء نسل ہے۔محض قضاء شہوت مقصود نہیں ہے، بلکہ جیسا کہ اوپر کی عبارت سے معلوم ہوا انسان کے اندر شہوت کی تخلیق کامقصد بھی بقاء نسل اور طلب اولاد ہی ہے۔
سورۃ البقرۃ، آیت ۲۲۳میں کہاگیاہے
نِسَاءُکُمْ حَرْثُ لَّکُمْ ص فَأتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ۔
’’تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، سوجائو اپنی کھیتی میں جہاں سے چاہو۔‘‘
اس تشبیہ نے دن کی روشنی کی طرح یہ بات صاف کردی کہ جائز مباشرت کا اصل مقصد طلب اولاد ہی ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ نے اس آیت کے تحت اپنے حاشیے میں لکھا ہے
’’یعنی تمہاری عورتیں تمہارے لیے بمنزلہ کھیتی ہیں جس میں نطفہ بجائے تخم اور اولاد بمنزلہ پیداوار کے ہے۔ یعنی اس کا مقصد صرف نسل کا باقی رکھنا اور اولاد کا پیداہونا ہے۔‘‘
یہی بات تفسیر مدارک التنزیل میں لکھی ہے
تنبیھا علی أن المطلوب الأصلی فی الاتیان ھو طلب الولد لاقضاء الشھوۃ۔
(ص۸۲)
’’اس آیت میں تنبیہ کی گئی ہے کہ بیویوں سے مباشرت کی اصل غرض اولاد کی طلب ہے، محض قضاء شہوت نہیں ہے۔‘‘
تمام مفسرین قرآن نے اس آیت کے تحت یہی بات لکھی ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے تدبر قرآن میں لکھا ہے
’’ اس استعارے (یعنی عورتوں کے لیے کھیتی کے استعارے) نے ان لوگوں کے نظریے کی تو جڑہی کاٹ دی ہے جو خاندانی منصوبہ بندی کی اسکیمیں چلاتے ہیں اس لیے کہ کھیتی سے متعلق یہ رہ نمائی تو معقول قراردی جاسکتی ہے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ اور اچھی سے اچھی پیداوار کس طرح حاصل کی جائے لیکن یہ بات بالکل غیرمنطقی ہے کہ لوگوں کو اس بات کے سبق پڑھائے جائیں کہ وہ بیج تو زیادہ سے زیادہ ڈالیں لیکن فصل کم سے کم حاصل کریں۔ اس قسم کی نامعقول منطق صرف نادانوں ہی کو سوجھ سکتی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ج۱ص۴۸۴)
ان ایجابی دلائل سے بھی یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی کہ نس بندی کا عمل ممنوع اور تحدید نسل کی مہم غلط ہے۔
(۵) کچھ لوگ نس بندی کے جواز کے لیے عزل کے جواز سے دلیل لاتے ہیں۔ خود عزل کے جواز وعدم جواز کی بحث سے قطع نظر ان کا عزل سے استدلال صحیح نہیں ہے۔ کیوں کہ نس بندی کی مشابہت اختصا یعنی خصی ہونے کے عمل سے ہے نہ کہ عزل سے۔ عزل کا عمل یہ ہے کہ جماع کے بعد مادہ کا اخراج باہر کیاجائے، اندر نہ کیاجائے۔ اس کے سوا عزل کی کوئی اور حقیقت نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہےکہ عزل اگرجائز بھی ہوتو یہ محض انفرادی طورپر جائز ہے۔ اگر کوئی حکومت عزل کی مہم چلائے، اس کےلیے منصوبہ بنائے یا اس کے لیے زور زبردستی پراتر آئے تو شریعت اسلامی میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
(جون ۱۹۷۷ء ج ۵۸ ش۶)