مجھے چند سوالات بے حد پریشان کرتے ہیں ۔ میرے لیے ان کے تسلی بخش جوابات حاصل کرنا بے حد ضروری ہے ۔ امید ہے کہ اس سلسلے میں آپ میری مددفرمائیں گے؟
(۱) ہرانسان کے پاس اتنی عقل نہیں ہے کہ وہ خود تحقیق کرکے حق کو پہنچانے۔ پھر ایک عام انسان کس طرح اس دنیا میں پیش کیے جانے والے بیسیوں نظریات، افکاراور نظام ہائے زندگی میں سے خود اپنی صواب دید کے مطابق کسی ایک کو چن سکتا ہے؟
(۲) ہم مسلمانوں میں ایسے لوگ شامل ہیں، بلکہ اگر مبالغہ نہ ہو تو اکثریت ایسوں کی ہے جنہوں نے اسلام کو اپنے علم، اپنی بصیرت اوراپنی عقل سے پہچان کرنہیں اپنایا ہے۔ بہتوں نے چپ چاپ مان لیا ہے ۔ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو محض اس لیے مسلمان ہیں کہ مسلمان باپ کے گھر پیداہوئے ہیں اور آبائی مذہب ہونے کی وجہ سے محض عقیدت کی بناپر مسلمان ہیں ۔ کچھ ایسے ہیں جن کے ذہن نے کبھی ان باتوں پرغوربھی نہیں کیا ہے ۔کچھ ایسے ہیں جوذہنی انتشار میں مبتلا ہیں لیکن پھر بھی مسلمان ہیں اس لیے کہ اپنے اندر اتنی اخلاقی جرأت نہیں پاتے کہ اپنے غیرمطمئن ہونے کا اظہار کرسکیں ۔ اب جب کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو انسانوں سے اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ اس کو اپنے علم، عقل اور اپنی بصیرت سے جان کر اور پہچان کر اپنائیں تو پھر ایسے مسلمانوں کا جن کا ذکر اوپر آیا، پوزیشن کیاہوگی؟
(۳) اوپر کے دونوں سوالوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلام کے اس عقیدے پر غور فرمائیے کہ جس نے اسلام کو قبول کیاوہ اخروی فلاح کا مستحق ہوگا اور جو نہ اپنا سکا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کے عذاب سے دوچارہوگا۔
اب اس حقیقت کو دیکھیے کہ جس طرح مسلمانوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اسلام کی حقیقت سے ناواقف ہوتے ہوئے بھی مسلمان ہیں ۔ انہوں نےغیرجذباتی طورپر اسلام کو دوسرے نظریات وافکار اورمذاہب کے برابر رکھ کر سب کا تحقیقی یا تقابلی مطالعہ بھی اس نظرسے نہیں کیا ہے کہ جو حق ہوگا وہ قبول کرلیں گے۔اسی طرح غیر مسلموں کی اکثریت بھی محض پیدائشی یانسلی غیرمسلم ہے۔ ان کے پاس بھی اتنی عقل وبصیرت نہیں ہے کہ وہ جذبات سے اونچے اٹھ کر حق کی تلاش وجستجو کریں اور اسلام کے حق ہونے کا ادراک کرسکیں ۔ اس صورت میں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ جب کوشش دونوں نے نہیں کی تو ایک محض مسلم گھرانے میں پیدا ہونے کی وجہ سے کیوں دائمی فلاح اور دوسرا محض غیرمسلموں میں پیداہوجانے کی وجہ سے کیوں دائمی عذاب کامستحق ہوگیا؟
(۴) اگریہ فرض کرلیا جائے کہ مذکورہ دونوں افراد پرغوروفکر کے بعد ہی ایمان لے آنا ضروری ہے تب بھی یہ سوال رہ جاتا ہے کہ ایک کے لیے قبولیت اسلام (یعنی قبولیت حق) مسلمانوں میں پیدا ہوجانے کی وجہ سے دوسرے کے مقابلے میں جو کہ غیر مسلموں میں پیداہوگیاہو، نسبتاً زیادہ آسان ہے۔ کیوں کہ اس کے لیے اپنے آبائی مذہب کو مکمل طورپر چھوڑ دینے کا سوال ہے اور نہ ان تعصبات اور عقیدتوں کی زنجیروں کو کاٹنے کا مسئلہ اور نہ خونی رشتوں کے توڑنے کامسئلہ، جب کہ دوسرے کے آگے یہ سب مسئلے پوری قوت سے موجود ہیں ۔ یہاں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ دونوں کو مساوی مواقع کیوں حاصل نہیں ہیں ؟
براہ کرم ان سوالا ت کے ایسے جوابات دیجیے کہ میرے اندر کے ان فکری رخنوں کو پرکرسکیں اور ایک مسلمان کو یکسوئی حاصل ہوسکے۔
جواب
آپ نے اپنے پہلے سوال میں انسانی عقل کی قدروقیمت بہت گھٹادی ہے ۔ اس کے برعکس، آج کے دانش وروں، فلسفیوں اورسائنس دانوں نے اس کی قدروقیمت بہت بڑھادی ہے۔ حالاں کہ بات ان دونوں کے درمیان ہے۔ عقل نہ اتنی غیرمحدود ہے کہ سب کچھ جان سکے اور نہ اتنی محدود ہے کہ حق کو نہ پہچان سکے۔
وہ حق جس کو جاننا پہچاننا انسان کی نجات کےلیے ضروری ہے، یہ ہے کہ اس کائنات کاکوئی خدا ہے یا نہیں ؟ اور اگر ہے تو وہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ بالکل عام انسان کی عقل بھی اس کو معلوم کرسکتی ہے، یہاں تک کہ بالفرض کسی انسان نے کسی ایسے جزیرے میں آنکھ کھولی ہوجہاں اس کے سواکوئی دوسرا انسان موجود نہ ہوتو بالغ ہونے کے بعد اس شخص کی عقل بھی بطورخود یہ جان سکتی ہے کہ اس دنیا کو کسی پیداکرنے والے نے پیداکیا ہے اوروہ ایک ہی ہوسکتا ہے، ورنہ کائنات کا یہ نظم قائم نہ رہتا۔ البتہ جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ خدا ہم سے کیا چاہتا ہے اور اس نے ہمیں اس دنیا میں کس مقصد سے بھیجا ہے تو بلاشبہ اس سوال کا جواب انسانی عقل بطورخود نہیں جان سکتی وہ عوام کی عقل ہو یا خواص کی۔اسی سوال کا جواب دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبربھیجے ہیں اور اپنی کتابیں نازل کی ہیں ۔ آپ چوں کہ ہماری طرح خدا کے فضل سے مسلمان ہیں اس لیے مجھے اس بات پردلیل دینے کی ضرورت نہیں ہے کہ اللہ نے اس دنیا میں سیدنا محمدﷺ کو اپنا آخری رسول بناکر بھیجا ہے اور قرآن، اللہ کی وہ آخری کتاب ہے جو قیامت تک انسانوں کی ہدایت کاکام انجام دیتی رہے گی۔ قرآن کریم کی تعلیمات، انسانی فطرت کےمطابق اوراتنی سادہ ہیں کہ دیہات کے ناخواندہ لوگ بھی اس کو سمجھ سکتے اور ان کے دل اس کی سچائی کی گواہی دے سکتے ہیں ۔ آپ جانتے ہیں کہ عرب کے ناخواندہ لوگوں نے بھی اسلام کو سمجھا او رایمان لائے۔ اس سے معلوم ہواکہ ہرانسان کی عقل اسلام کے حق ہونے کو پہچان سکتی ہے۔
آپ کے دوسرے اور تیسرے سوال سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ شاید آپ صحیح مسلمان بننے کے لیے یہ ضروری سمجھ رہے ہیں کہ جب تک ہر مسلمان تمام مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرکے اسلام کو قبول نہ کرے اس وقت تک وہ صحیح مسلمان نہیں ہوسکتا۔ اگر آں جناب کےذہن میں واقعی کوئی ایسی بات ہے تو یہ صحیح نہیں ہے۔ اگر کوئی مسلمان اپنے ماں باپ کی تقلید ہی میں اسلام کو سچا دین سمجھتا او رصحیح عقائد رکھتا ہے تو یہ اس کے صحیح مسلمان بننے اور اس کی نجات کےلیے کافی ہے ۔ البتہ اس کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلام کے احکام کیا ہیں ؟ اسےکن باتوں پر عمل کرنا چاہیے اورکن باتوں سے بچنا چاہیے۔ اس علم کے بعد اپنی صلاحیت کے مطابق اگروہ عمل کررہاہے تو اس کا معاملہ بالکل ٹھیک ہے۔ دین اسلام کا حق ہونا ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ اس کے علاوہ یہ دین انسان کی اپنی فطرت کے مطابق ہے، اس لیے اس کو اختیار کرنے کے لیے دوسرے ادیان کی تحقیق یا خود اسلام کے تمام احکام کی تحقیق ضروری شرط نہیں ہے۔ ہم آپ سبھی جانتے ہیں کہ اگر کوئی مفید بات کسی کی تقلید ہی میں اختیار کی جائے تو وہ مفید ہی رہے گی اور تقلید کرنے والے کو فائدہ پہنچائے گی۔ اسی طرح اگر کوئی مضر چیز کسی کی تقلید ہی میں اختیارکی جائے تو اس کا ضرراپنی جگہ رہے گاـــــــباقی رہے وہ مسلمان جو اسلامی عقائد پرمطمئن نہیں رہے ہیں اور بزدلی کی وجہ سے اپنے عدم اطمینان کا اعلان واظہار نہیں کرتے تو ان کا معاملہ خدا کے سپرد ہے ۔ جب تک کوئی شخص علانیہ کفر اختیار نہ کرے، ظاہری طورپروہ مسلمان سمجھا جاتا رہے گا، لیکن آخرت میں یہ منافقانہ ایمان واسلام کام نہ آئے گاـــــــجو لوگ مشرک ہیں ان تک توحیداور اسلام کا پیغام پہنچانا ہمارا اور آپ کا کام ہے۔ اس کے باوجوباپ ماں کی تقلید ہی میں سہی، شرک اختیارکیے رہنا صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہر انسان کی عقل، بطورخود خدا کے وجود اور اس کی وحدانیت کو جان سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، ہرقوم میں اللہ کے پیغمبر آتے رہے ہیں اور توحید کی تعلیم دیتے رہے ہیں ۔ جانوروں کی طرح زندگی بسر کرنا اور ان مسائل پرسرے سے غور ہی نہ کرنا کوئی معقول عذر نہیں ہے۔ شرک چوں کہ ایک بے بنیاداورمہلک چیز ہے اس لیے اس کو تقلید اً ہی اختیارکیے رہنا انسان کو اس کے نقصان سے بچانہیں سکتا۔
آپ کا چوتھا سوال یہ ہے کہ مسلمان گھر میں پیدا ہونے والوں اورمشرک گھر میں پیدا ہونے والوں کو قبول حق کے یکساں مواقع کیوں حاصل نہیں ہیں ؟ آپ نے شاید سوچا نہیں کہ اس سوال کا مطلب کیاہوا؟ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ یا تو اللہ کو مشرکوں کی نسل ہی ختم کردینی چاہیے تھی یا اس کو یہ کرنا چاہیے کہ جب اس نے لاکھوں بچوں کو مشرکوں کے گھر میں پیدا کردیا ہے تو اب مشرکوں سے شرک وکفر کی باز پرس کرے اور نہ انھیں سزادے۔ آپ خود غورکریں کہ اللہ کے اختیارواقتدار اوراس کی تخلیق پرہم یہ پابندی عائد کرنےوالے کون ہوتے ہیں ۔ اس قسم کے سوالات، مسلمان کے ذہن میں شیطان پیداکرتا ہے تاکہ وہ اس کوخداکی طرف سے بدگمان کرکے گم راہ کردے۔ ایسے موقع پرصحیح علاج یہ ہےکہ انسان شیطان کے شرسے پناہ مانگے۔ اس کے علاوہ آپ اس پر غورفرمائیں کہ اگر خدا محض اس وجہ سے مشرکوں سے باز پرس نہ کرے کہ وہ مشرکوں کے گھر میں پیداہوئے تھے تو پھر مسلمانوں کے گھر میں کسی کا پیداہونا اس کے حق میں اچھا نہ ہوگا، مشرکوں کے گھر میں پیدا ہوتا تو خواہش نفس کے مطابق زندگی بھی بسرکرتا اور کوئی باز پرس بھی نہ ہوتیـــــــحالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ عقل جو تمام ذمہ داریوں کی اصل ہے،وہ اللہ نے سب کو عطا کی ہے۔ کوئی شخص مسلمان کے گھرمیں پیداہوکر آزمایا جارہاہے او رکوئی مشرک کے گھر میں پیدا ہوکر آزمایا جارہاہے۔ آزمائش سے فارغ کوئی بھی نہیں ہے۔ ہمیں اور آپ کو مسلمان گھر میں پیداہونے کا شکریہ اس طرح ادا کرنا چاہیے کہ غیرمسلموں تک اسلام کا پیغام پہنچائیں ۔ تخلیق کے تمام وکمال تصرفات واختیارات خدا کے ہاتھ میں ہیں، اس لیے اس طرح کے مسائل میں اپنے ذہن کو الجھانے سے کیا فائدہ؟ایک اور پہلو سے اس مسئلے پر غورکیجیے۔ جزیرۃ العرب کے مشرکین نے اسلام کیسے قبول کرلیا؟ کیا ان کے سامنے وہ دشواریاں نہ تھیں جن کا ذکر آپ نےاپنے چوتھے سوال میں کیا ہے؟ اس کے علاوہ آج تک لاکھوں مشرکوں نے دنیا کے مختلف ممالک میں اسلام قبول کیا ہے اور کررہے ہیں ۔ کیا ان کے سامنے وہ دشواریاں نہ تھیں یا نہیں ہیں ؟ پھر یہ بھی سوچیے کہ مشرک اگر اسلام قبول کرکے ایک معاشرے سے کٹتا ہے تو ایک دوسرے معاشرے کے ساتھ جڑتا بھی تو ہے؟ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ محض دنیا کا فائدہ حاصل کرنے کے لیے لوگ ایک سوسائٹی سے کٹتے اور دوسری سوسائٹی کے ساتھ جڑتے رہتے ہیں تو آخراس بات کو قبول حق سے مانع کیوں تسلیم کرلیا جائےـــــــیہ بات بھی قابل غور ہے کہ کیا مسلمانوں کو اسلام پرقائم رہنے میں کم دشواریاں پیش آتی ہیں ؟ دشواریوں کی نوعیت میں فرق ہوسکتا ہے، لیکن دشواریاں تو بہرحال دشواریاں ہیں ۔ (فروری ۱۹۶۷ءج۳۸ش۱)