میرے خاوند مبلغ چالیس روپے کے ملازم ہیں اور یہاں ایک بکراساٹھ سترروپے میں ملتا ہے۔ میرے ایک بچہ کی ولادت کے بعد خاوند نے والدین کو لکھا کہ آپ عقیقہ غائبانہ طورپر اس کے نام پر کردیں۔ چناں چہ اس طرح عقیقہ ہوگیا۔ میرا آبائی مسلک اہل حدیث ہے۔اب کچھ لوگ طرح طرح کے اعتراضات کررہے ہیں اور میں اور میرے خاوند سخت ذہنی الجھن میں مبتلا ہیں۔ آپ کی بڑی عنایت ہوگی اگر آپ مندرجہ ذیل باتوں کی مدلل وضاحت فرمادیں۔ گزارش یہ ہے کہ چاروں مذاہب کو سامنے رکھ کر جواب دیں اور عربی عبارتیں بھی نقل کردیں۔ میں آپ کی شکرگزارہوں گی۔
۱- عقیقہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ آیا یہ واجب ہے یا سنت یامستحب؟
۲- کیا ہرحال میں عقیقہ کرنا لازم ہے۔مالی گنجائش ہویا نہ ہو؟
۳- کیاغائبانہ عقیقہ درست نہیں ہے؟
۴- کیا عقیقہ کے جانور میں قربانی کے جانور کی تمام شرطیں ضروری ہیں ؟
۵- کیا بچے کے والدین کے علاوہ کوئی دوسرا عزیز قریب عقیقہ کردے تو ادا نہ ہوگا؟
۶- کیا یہ بات ثابت کی جاسکتی ہے کہ صحابہ نے سفر میں عقیقہ نہیں کیا ہے؟
جواب
ٓپ کے سوالات کے مختصر جوابات درج ہیں۔
۱-عقیقہ اصحاب الظاہراورحسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک واجب، اہل بیت، ائمہ ثلاثہ اور جمہورفقہاء کے نزدیک سنت اور مذہب حنفی میں نفل یا مستحب ہے۔ شوکانی لکھتے ہیں
القائلون بانھا واجبۃ ھم الظاھریۃ والحسن البصری وذھب الجمھورمن العترہ وغیرھم الی انھا سنۃ وذھب ابوحنیفۃ الی انھا لیست فرضا ولا سنۃ وقیل انھا عندہ تطوع۔ (نیل الاوطار،ج۵)
’’اصحاب الظاہر اورحسن بصری عقیقہ کے واجب ہونے کے قائل ہیں اور جمہور فقہا، اہل بیت وغیراہل بیت اس کو سنت کہتے ہیں اور ابوحنیفہ کے نزدیک نہ وہ فرض ہے اور نہ سنت۔ ایک قول یہ ہے کہ عقیقہ ابوحنیفہ کے نزدیک نفل ہے۔‘‘
علامہ شامی نے شرح طحاوی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ عقیقہ تطوع (نفل) ہے۔ لیکن راقم الحروف نے ہندوستان کے علماکی کتابوں میں پڑھا ہے کہ وہ اس کو مستحب کہتے ہیں۔ اس سلسلے میں جو احادیث آئی ہیں ان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ زیادہ سے زیادہ سنت یا مستحب ہے۔موطا امام مالک کی حدیث یہ ہے
سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن العقیقۃ فقال لا احب العقوق وکانہ انما کرہ الاسم وقال من ولد لہ ولدفاحب ان ینسک من ولدہ فلیفعل۔ (موطا،کتاب العقیقہ)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں عقوق(نافرمانی) کو پسند نہیں کرتا۔ گویا آپ نے اسم عقیقہ کو ناپسند فرمایا اور کہا کہ جس کے یہاں کوئی بچہ پیدا ہواور وہ اپنے بچے کی طرف سے جانورذبح کرنا پسند کرے تو اسے چاہیے کہ ایسا کرے۔‘‘
اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ کوئی دینی فریضہ نہیں ہے بلکہ کرنے والے کی مرضی پرموقوف ہے، وہ چاہے تو کرے اور چاہے تو نہ کرے۔ اسی مضمون کی حدیث ابودائود نے ایک دوسری سند سے روایت کی ہے۔ اس میں بھی یہی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے نومولود بچے کی طرف سے جانور ذبح کرنا چاہے تو کرے۔عقیقہ کے شرعی حکم کا امام بخاری کے اس ترجمہ باب سے بھی پتا چلتا ہے جس میں کہاگیا ہے کہ جس بچہ کا عقیقہ نہ کیا جائے اس کا نام پیدائش کے دوسرے ہی دن رکھ دینا چاہیے۔اس باب کی شرح میں علامہ ابن حجر لکھتے ہیں
من لم یردان یعق عنہ لا یوخر تسمیتہ الی السابع کما وقع فی قصۃ ابراھیم بن ابی موسیٰ وعبداللہ بن ابی طلحۃ وکذالک ابراھیم بن النبی صلی اللہ علیہ وسلم وعبداللہ بن الزبیرفانہ لم ینقل انہ عق احدمنھم ومن ارید ان یعق عنہ توخرتسمیتہ الی السابع۔
(فتح الباری، ج۹،کتاب العقیقہ)
’’جس بچے کے عقیقہ کا ارادہ نہ ہو اس کا نام رکھنے میں ساتویں دن تک تاخیرنہ کی جائے گی جیسا کہ ابراہیم بن ابی موسیٰ اور عبداللہ بن ابی طلحہ کے قصے میں واقع ہوااور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم اور عبداللہ بن زبیر کے قصے میں واقع ہوا۔اس لیے کہ ان میں سے کسی کے بارے میں یہ منقول نہیں ہے کہ اس کا عقیقہ کیاگیا ہواور جس بچہ کے عقیقہ کا ارادہ ہو اس کانام رکھنے میں ساتویں دن تک تاخیرکی جائے گی۔‘‘
علامہ ابن حجرکی یہ عبارت عقیقہ کے مسئلے میں خاصی اہمیت رکھتی ہے۔ اس لیے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد رسالت میں ہر بچے کا عقیقہ نہیں ہوتاتھا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ حضورؐ نے خود اپنے صاحبزادے کا عقیقہ نہیں کیا۔ اگر حضورؐ ان کا عقیقہ کرتے تو پھر یہ بات ناقابل فہم ہے کہ احادیث و سیر میں اس کا ذکر نہ آتا۔ جب کہ حضرت حسن وحسین کے عقیقے کا ذکر متعدد احادیث میں آتا ہے۔ یہی دلائل ہیں جن کی بناپر جمہور فقہائے مجتہدین نے عقیقے کے واجب ہونے کی نفی کی ہے۔ لیکن بعض حدیثوں سے عقیقے کے حکم کی تاکید ثابت ہوتی ہے اس لیے تمام احادیث کو سامنے رکھ کر انھوں نے اس کو سنت قراردیاہے۔
۲-آپ کا یہ سوال سمجھ میں نہ آیا۔کیا کسی شخص کا خیال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عقیقہ ہرحال میں لازم ہے چاہے مالی گنجائش ہویا نہ ہو؟اگر کوئی یہ خیال رکھتا ہے تو اس کا خیال بے تکا اور بے دلیل ہے۔ اسلامی شریعت کا یہ مسلمہ مسئلہ ہے کہ جن واجبات وسنن کی ادائیگی مال پر موقوف ہے اس کے مکلف وہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنی لابدی ضروریات سے زیادہ اتنا مال رکھتے ہوں کہ ان واجبات وسنن کو ادا کرسکیں۔ اگر بالفرض عقیقے کو دینی فریضہ، واجب اور اسلامی شعار بھی مان لیا جائے تو اس کی ادائی اسی شخص پر ضروری ہوگی جس کے مال میں اس کی گنجائش موجود ہو۔ مالی گنجائش موجودنہ ہوتے ہوئے اس کو واجب قرار دینا شرعی احکام سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔
۳-اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کوئی شخص اپنے بچہ کا عقیقہ غائبانہ کرادے تومیرے نزدیک عقیقہ ہوجائے گا اور سنت ادا ہوجائے گی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ مالی واجبات وسنت کی ادائیگی کے لیے اس مقام پر اس شخص کی موجودگی ضروری نہیں ہے جہاں کوئی سنت یا واجب اس کی طرف سے ادا کیا گیا ہو۔ مثلاً کوئی شخص اگر سفر میں ہو اوراس کی اجازت سے کوئی دوسرا شخص اس کے وطن میں اس کی طرف سے زکوٰۃ ادا کردے تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ یہی مسئلہ قربانی کا بھی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ کسی مسلک میں بھی یہ بات ضروری قراردی گئی ہوکہ جس کی طرف سے قربانی کی گئی ہو اس کا اس مقام پر موجود ہونا ضروری ہے۔ یہ بات معلوم ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے بھی قربانی کی تھی جنہوں نے قربانی نہ کی ہو۔ ظاہر ہے کہ وہ تمام لوگ جن کی طرف سے آپ نے قربانی کی مدینہ میں موجود نہ تھے۔
عن جابر بن عبداللہ قال شھدت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الاضحی فی المصلی فلما قضی خطبتہ نزل من منبرہ واتی بکبش فذبحہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدہ وقال بسم اللہ واللہ اکبر ھذا عنی وعن من لم یضح من امتی (ابودائود)
’’جابر بن عبداللہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عیدگاہ میں عیدالاضحی کی نماز پڑھی۔ جب حضورؐ خطبے سے فارغ ہوئے تو منبر سے اترے اور آپ کے پاس ایک مینڈھا لایا گیا تو آپ نے اپنے دست مبارک سے اسے ذبح کیا اور کہا بسم اللہ واللہ اکبر۔ یہ میری طرف سے اورمیری امت کے ان لوگوں کی طرف سے جنہوں نے قربانی نہیں کی۔‘‘
صاحب عون المعبود نے ابن ابی شیبہ اور ابویعلی موصلی کے حوالے سے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں یہ ہے کہ آپ نے دومینڈھے ذبح کیے، ایک اپنی اوراپنی آل کی طرف سے اور ایک اپنی امت کی طرف سے۔ اہل حدیث حضرات اس حدیث کو بھی ایک مینڈھے یا ایک بکرے میں متعدد افراد کی شرکت کو جائز قرار دینے کےلیےپیش کرتے ہیں۔ پھر کوئی اہل حدیث یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ جس کی طرف سے قربانی کی جائے اس کا وہاں موجود ہونا ضروری ہے۔ اگر ایسا ہوتو پھر نعوذ باللہ ان لوگوں کی طرف سے حضورؐ کی قربانی صحیح نہ رہے گی جو مدینے میں موجود نہ تھے اور جب قربانی غائبانہ ادا ہوجاتی ہے تو پھر عقیقہ غائبانہ کیوں صحیح نہ ہوگا جب کہ نومولود بچے کی موجودگی اور عدم موجودگی اس لحاظ سے برابر ہے کہ اس کو اس کی خبر ہی نہیں ہوتی۔یہ خیال رہے کہ گفتگو یہ نہیں ہورہی ہے کہ بہتر کیا ہے؟بلکہ یہ ہورہی ہے کہ کسی معذوری کی بناپر اگر عقیقہ غائبانہ کرادیا جائے گا تو وہ ادا ہوجائے گا یا نہیں ؟اوپر کے دلائل سے ثابت ہواکہ ادا ہوجائےگا۔
۴- جمہورفقہائے مجتہدین کے نزدیک عقیقہ کے جانور کو ان عیوب سے خالی ہونا چاہیے جن سے قربانی کے جانور کا خالی ہونا ضروری ہے۔ ان کے مسلک کی دلیل قربانی کے جانورپرقیاس ہے۔امام شوکانی نے اس سے اختلاف کیا ہے اور انھیں کی رائے صاحب تحفہ الاحوذی نے بھی اختیارکی ہے۔ مولانا مبارک پوری لکھتے ہیں
قلت لم یثبت الاشتراط بحدیث صحیح اصلا ولا بحدیث ضعیف قال الشوکانی فی النیل ھل یشترط فی العقیقۃ مایشترط فی الاضحیۃ وفیہ وجھان للشافعی وقد استدل باطلاق الشاتین علی عدم الاشتراط وھوالحق لکن لا لھذاالاطلاق بل لعدم ورود مایدل ھھنا علی تلک الشروط والعیوب المذکورۃ فی الاضحیۃ وھی احکام شرعیۃ لاتثبت بدون دلیل۔ (تحفہ الاحوذی،ج۲،ص۳۶۵)
’’میں کہتا ہوں کہ اشتراط بالکل ثابت نہیں ہے نہ کسی صحیح حدیث سے اور نہ کسی ضعیف حدیث سے۔ شوکانی نے نیل الاوطار میں کہا کیا عقیقہ کے جانور میں بھی وہ شرط لگائی جائے گی جو قربانی کے جانور میں ہے؟ امام شافعی کے اس مسئلہ میں دوقول ہیں۔ عقیقہ کی حدیث میں بغیر کسی قید کے دوبکریاں ذبح کرنے کو کہا گیا ہے۔ اس اطلاق سے استدلال کیا گیا ہے کہ عقیقہ کے جانور میں قربانی کے جانور کی شرط نہ ہوگی اور یہی حق ہے، لیکن اس اطلاق کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے کہ عقیقہ کی احادیث میں کوئی ایسی چیزنہیں ہے جو ان شرطوں اورعیبوں پر دلالت کرے جو قربانی کے جانور میں مذکورہیں۔ اور یہ شرعی احکام ہیں جوبغیردلیل کے ثابت نہیں ہوتے۔‘‘
ائمہ مجتہدین کی طرف سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ قیاس بھی تو ایک دلیل شرعی ہے اور جب قیاس سے شرط ثابت ہورہی ہے تو اسے بلادلیل کہنا کس طرح صحیح ہے؟ اس کے باوجود اہل حدیث حضرات کے لیے اس کی گنجائش موجود ہے کہ وہ شوکانی اور مولانا مبارک پوری کی رائے پر عمل کریں۔
۵- اگر ماں باپ کی اجازت سے کوئی دوسرا شخص عقیقہ کردے تو ہوجائے گا۔ اس کی ایک دلیل تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے کہ آپ نے حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے عقیقہ کیاتھا۔ دوسری دلیل حدیث کا یہ ٹکڑا ہے۔ جس میں یذبح عنہ یوم سابعہ یعنی ساتویں دن بچے کی طرف سے جانور ذبح کیاجائے گا۔ کون ذبح کرےگا اس کاذکر نہیں ہے۔ چناں چہ یذبح کے فعل مجہول سے اس پر استدلال کیاگیا ہے۔شوکانی اس جملہ کی شرح میں لکھتے ہیں
وفیہ دلیل علی انہ یصح ان یتولی ذلک الاجنبی کما یصح ان یتولاہ القریب عن قریبہ والشخص عن نفسہ۔ (نیل الاوطار،جلد۵)
’’اور اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ عقیقہ کوئی اجنبی شخص بھی بچے کی طرف سے کرسکتا ہے جس طرح یہ صحیح ہے کہ کوئی رشتہ دار اپنے رشتہ دار کی طرف سے کردے یا کوئی شخص اپنا عقیقہ خود کرے۔‘‘
اپنا عقیقہ خود کرنے کامطلب یہ ہے کہ اگر کسی کا عقیقہ نہ ہوا ہوتو بالغ ہونے کے بعد اس کی گنجائش ہے کہ وہ خود اپنے عقیقے میں ایک جانور ذبح کرے۔ شوکانی کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ کسی بچہ کے باپ کی ذمہ داری اگر کوئی دوسرا شخص اٹھالے توجائز ہے۔
۶-یہ سوال بھی سائل کی مسائل شرعیہ سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ سفر میں توبہت سے فرائض وواجبات میں بھی تخفیف پیدا کی گئی ہے اور ان کی ادائیگی کو موخر کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ کیا عقیقہ روزے، نماز اور قربانی سے بڑھ گیا ؟ اس کے علاوہ جو شخص اس کا مدعی ہوکہ صحابہ سفر میں بھی عقیقہ کیا کرتے تھے تو ثبوت اس کو پیش کرنا چاہیے۔اوپر آچکا ہے کہ صحابہ بلکہ خود حضورؐ نے حضر میں بھی عقیقہ کو ترک کیا ہے، سفر کا کیا سوال پیداہوتاہے۔ (جنوری ۱۹۶۴ء،ج۳۲،ش۱۱)