جواب
آپ کا سوال بہت تفصیل طلب ہے۔اس کے مختلف پہلوئوں پر میں بارہا اپنے مضامین میں روشنی ڈال چکا ہوں ۔اگرچہ براہِ راست اس خاص موضوع پر کچھ نہیں لکھا ہے۔
ظاہر سے مراد اگر احکامِ شریعت ہوں اور باطن سے مراد حکمتِ دین،یا ظاہر سے مراد احکامِ شرعی کی تعمیل ہو اور باطن سے مراد یہ ہو کہ آدمی اس اعتقادی واخلاقی روح کو سمجھے اور اپنے نفس اور سیرت وکردار میں اسے جاری وساری کرے جو احکام شرعی کی تعمیل میں درحقیقت مطلوب ہے، تو یقیناً ظاہر اور باطن کی یہ تفریق درست ہے، لیکن اس تفریق کے لحاظ سے باطن کا سرچشمہ بھی وہی ہے جو ظاہر کا سرچشمہ ہے،یعنی خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت۔ یہی تلاوت قرآن،یہی مطالعۂ سیرت پاک اور یہی صوم وصلاۃ اور دوسرے شرعی احکام،جس طرح ظاہر کی اصلاح کے لیے کافی ہیں ، اسی طرح باطن کی تکمیل کا ذریعہ بھی ہیں ۔اس غرض کے لیے ان چیزوں سے الگ کسی مجاہدہ وریاضت کی ضرورت نہیں ہے۔
لیکن اگر باطن سے مراد وہ فلسفے ہیں جو یونا ن اور روم اور ایران اور ہند سے آئے اور تصوّف کے نام سے مسلمانوں میں رائج ہوگئے، تو وہ چاہے جس چیز کا باطن بھی ہوں ، بہرحال اسلام کا باطن تو نہیں ہیں ۔ جو مشقیں اور ریاضتیں اس غرض سے کی جاتی ہیں کہ ان فلسفوں کی رُو سے جس شے کو ’’حقیقت‘‘ سمجھا گیا ہے ،اس کا مشاہدہ حاصل ہو اور آدمی کشف اور خرقِ عادت اور صدورعجائب پر قادر ہوجائے،ان کی شکلیں چاہے اسلامی نماز روزے سے ملتی جلتی ہی کیوں نہ ہوں ، اور ان میں اسلامی اصطلاحات کا استعمال ہی کیوں نہ کیا جاتا ہو،بہرحال وہ اسلامی عبادات کی تعریف میں نہیں آتیں ،کیوں کہ ان کی غرض اسلامی عبادات کی غرض سے،اور ان کا ضابطہ سنت نبوی کے مقرر کردہ ضابطے سے مختلف ہے۔ (ترجمان القرآن ، اپریل ۱۹۴۶ء)