عورتوں کے اخلاقی عیوب

, ,

زندگی دسمبر ۱۹۶۰ء ملا۔ حضرت مجد د کا ایک مکتوب پڑھ کر خوشی ہوئی، مگر ایک بات لائق توجہ ہے کہ کیا عورتوں میں اخلاقی عیب واقعی مردوں سے زیادہ ہوتاہے؟ اور کیا قرآن سے لازماً یہ بات نکلتی ہے ؟ اس میں اختلاف رائے کی گنجائش ہے۔ آج ہندوستان اورپاکستان میں عورتوں کے اخلاق مردوں سے بہتر معلوم ہوتے ہیں اورامریکہ میں بھی عورتیں شاید مردوں سے بہتر ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہندوستان اورپاکستان میں چاہے عورتوں کے اخلاق مردوں سے برے بھی ہوں، مگر ان کے اندر تبلیغ کایہ طریقہ صحیح نہیں ہوگا کہ یہ بات ان سے منہ پراس طرح کہی جائے۔ اس سے تو ان کے دلوں پراور تالے چڑھ جائیں گے اورمضمون کاالٹا نتیجہ ہوگا۔ یہ بات میں اس قدر تفصیل سے اس لیے لکھ رہاہوں کہ میرا ارادہ تھا میں زندگی کا پرچہ اپنی بہنوں کے نام جاری کردوں، لیکن چوں کہ ان کے مزاج کو میں اچھی طرح جانتا ہوں لہٰذا مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ ایک مضمون کے دوچار جملے ان پر اتنا برا اثر ڈالیں گے کہ پورے اوراچھے مضامین سے ان کا پوری طرح مستفید ہونا بہت مشکل ہوجائے گا۔ اگر آئندہ اشاعت کےلیے دعوت کی اس ضرورت پربھی نظر رکھی جائے تو مناسب ہے۔

جواب

 آپ کا خط پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ نے دسمبر ۱۹۶۰ء کے شمارے کے مضامین وتراجم کوغورسے پڑھا اور پھر ان پر اپنی مفصل رائے لکھ بھیجی۔ میں اس کے لیے آپ کا شکرگزارہوں ۔ مکتوب حضرت مجددؒ کے ایک جملے پر آپ نے جو تفصیلی رائے لکھی ہے اس میں جو جذبہ کام کررہاہے اس سے مجھے اتفاق ہے۔ یعنی عورتوں کے سامنے جب اسلام کی تبلیغ کی جائے تو اس طرح نہ کی جائے کہ انھیں اشتعال پیداہو اور ان کے دلوں پر تالے پڑجائیں ۔یہ بات جس طرح عورتوں میں تبلیغ کے لیے ضروری ہے اسی طرح مردوں میں تبلیغ کے لیے بھی ضروری ہے۔ اس حکمت تبلیغ کا تعلق سبھوں کے ساتھ یکساں  ہے۔ لیکن اس سلسلے میں آں جناب نے اپنی محترم بہنوں کے ذہن کا جس انداز میں ذکر کیا ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید ان کے اذہان مساوات مردوزن کے نظریےسے متاثر ہیں اور وہ عورتوں کی کسی صحیح، مطابق واقعہ کم زوری کا ذکر بھی سننا پسندنہیں کرتیں ۔ ایساذہن یقیناً قابل اصلاح ہے۔ اسلام علی الاعلان مردوزن میں فرق کرتاہے اور دونوں کی کلی مساوات کا قائل نہیں ہے۔اس لیے اسلام کے اس عدم مساوات مردوزن کے نظریے کو عورتوں سے چھپاکرتبلیغ کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا۔ کلی مساوات مردوزن کا نظریہ خالص مغربی ذہن کی ایجاد ہے اوراس ایجاد کے پیچھے جو محرک کام کررہاتھا اسے بھی ہم صحت مند او ر مفید محرک نہیں کہہ سکتے۔ اس نظریے نے یورپ اورامریکہ کے معاشرے کو جس ابتری میں مبتلا کررکھا ہے وہ آپ سے پوشیدہ نہ ہوگا۔ بلکہ اب تویہ نظریہ اسلامی ممالک میں بھی ایک بڑا فتنہ بنتا چلاجارہاہے۔ اسلام کی راہ میں اس وقت جوموانع حائل ہیں ان میں کا ایک اہم مانع یہ نظریہ بھی ہے۔ عورتیں جب اس نظریے سے واقف ہوتی ہیں تو اس کی ظاہری چمک دمک سے متاثر ہوکر اس کے دام میں گرفتار ہوجاتی ہیں اور ہروہ چیز انھیں کھٹکنے لگتی ہے جو مردوں اور عورتوں کے مدارج ومراتب میں فرق کرتی ہو۔ وہ اس حقیقت پرغور نہیں کرتیں کہ مردوں اور عورتوں کے جسمانی اور ذہنی ساخت میں نمایاں فرق موجود ہے جسے کسی طرح مٹایا نہیں جاسکتا اوراسی طبعی اختلاف نے بہت سے معاملات میں ان دونوں اصناف کے درمیان فرق پیداکردیا ہے ۔ اس کو بدلنے کی خواہش یا اس کے خلاف جنگ کوئی مفید کام نہیں ہے۔ مردوں اورعورتوں کے مدارج کافرق قرآن سے صراحتاً معلوم ہوتاہے لیکن جہاں تک عورتوں میں بعض اخلاقی عیوب کی زیادتی کا تعلق ہے، قرآن میں صراحتاًاس کا ذکر نہیں ہے، عورتوں سے بیعت والی آیات میں اس کا اشارہ موجود ہے۔ لیکن ان آیات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مردوں میں وہ عیوب نہیں پائے جاتے۔ شاید اسی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے نبی اکرم ﷺ نے مردوں سے بھی ان شرائط پربیعت لی ہے اور یہ بات میں نے مکتوب حضرت مجددؒ کا ترجمہ کرتے ہوئے فٹ نوٹ میں واضح کردی ہے۔ صحیح احادیث سے بے شک یہ بات صراحتاً معلوم ہوتی ہے کہ عورتوں میں بعض اخلاقی عیوب زیادہ پائے جاتے ہیں، لیکن احادیث میں یہ بات، عورتوں کو احساس کمتری وکہتری میں مبتلا کرنے کے لیے نہیں کہی گئی ہے بلکہ اس لیے بیان کی گئی ہے کہ وہ متنبہ ہوں اور اپنے ان عیوب کو دور کرنے کی سعی کریں ۔ خدا اور آخرت پریقین رکھنے والی صحابیات ان احادیث سے احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہوئی تھیں بلکہ اپنے اخلاقی سدھار کی طرف زیادہ متوجہ ہوگئی تھیں ۔

ذہنی طورپر مردوں کے مقابلے میں عورتوں کے کم ہونے کا ایک ثبوت میرے نزدیک یہ بھی ہے کہ انھوں نے ایک ایسے نظریے کو قبول کرلیا جس کی انھیں مخالفت کرنی چاہیے تھی۔ جس نظریہ مساوات کو وہ اپنے لیے رحمت سمجھ رہی ہیں فی الواقع ان کے لیے وہ سخت زحمت ہے اور ان پر ایسی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالتا ہےجس کی وہ اہل نہیں ہیں ۔ایک ایسے نظریے کو اس شدت کے ساتھ قبول کرلینا کہ اس کے خلاف وہ کچھ سننے پرآمادہ نہ ہوں، ان کے نقص عقل کی کھلی دلیل ہے۔ عائلی زندگی کی ابتری نے اب تو یورپ اور امریکہ کے ایک طبقے کو بھی اس نظریے کی زہر ناکی سے آشنا کردیا ہے اور ان کی سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ کس طرح وہ اپنی خاندانی زندگی کو امن وسکون سے ہم کنارکریں ۔

آپ نے لکھا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں عورتوں کے اخلاق مردوں سے بہتر معلوم ہوتے ہیں اورامریکہ میں بھی عورتیں شاید مردوں سے بہتر ہیں ۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہندستان اور پاکستان میں تو آپ کو ان کی بہتری اس لیے محسوس ہوتی ہوگی کہ ابھی بحمد اللہ یہاں خاندانی اور اخلاقی حدود اس طرح نہیں ٹوٹے پھوٹے ہیں جس طرح یورپ اور امریکہ میں، اور ابھی ان دونوں ملکوں کی عورتوں کی اکثریت مساوات مردوزن کے نظریے سے مسموم نہیں ہوئی ہے، لیکن امریکہ کے بارے میں آپ کا تاثر عجیب معلوم ہوا ۔ میں اس کی تردید تو نہیں کرسکتا کیوں کہ آپ خود وہاں موجود ہیں اور میں وہاں موجود نہیں ہوں، لیکن وہاں کے جرائم کی جو رپورٹیں شائع ہوتی رہتی ہیں وہ آپ کے تاثر کا ساتھ نہیں دیتیں ۔ میں یہاں صرف دومثالیں آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں اوران دونوں کا تعلق ان جرائم سے ہے جن کا ذکر قرآن کی آیات بیعت میں موجود ہے۔ ابھی ابھی امریکہ کی ایک خاص قسم کی چوری، شاپ لفٹنگ، کی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ وہاں کے شاپ لفٹر پولیس کے لیے بھی درد سربنے ہوئے ہیں اور دکان دار بھی ان کے ہاتھوں سخت پریشان ہیں ۔اخبارات سے معلوم ہوا کہ گزشتہ سال بارہ لاکھ افراد نے ہاتھ کی صفائی دکھائی ہے ۔ بارہ لاکھ کی اس تعداد میں دس لاکھ عورتیں تھیں ۔ ان شاپ لفٹر عورتوں نے سات کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کی مالیت کا سامان چوری کیا۔ دوسری مثال ننگوں کے کلب کی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ زناکاری وبدکاری سے روکنے والا بہت بڑا عنصر’حیا‘ ہے۔ اگر یہ ختم ہوجائے تو پھر زنا سے عورت کا بچنا تقریباً ناممکن ہے۔ ان ننگے کلبوں کی جو رپورٹیں شائع ہوتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ممبروں میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ایک انداز ے کے مطابق نیچر زم پرعمل کرنے والوں کی تعداد دس لاکھ ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ نیچر زم کی تحریک کی لیڈر ایک ۲۰سالہ نوجوان لڑکی ہے جو شہر شہر گھوم کر نیچر زم کا پرچار کرتی ہے اور ممبر بھرتی کرتی ہے۔کیمپ سے باہر عام بازاروں میں گھومتے وقت بھی اس کے جسم پر برائے نام ہی لباس ہوتا ہے ۔ یہ رپورٹیں آپ کے تحریر کردہ تاثر کا ساتھ نہیں دیتیں ۔ میں نے یہ باتیں تفصیل سے اس لیے لکھی ہیں کہ ہمارے نزدیک مساوات مردوزن کا نظریہ واقعۃً بہت بڑا فتنہ ہے اوراس کو عورتوں کے ذہن سےنکالے بغیر اسلامی معاشرے کا وجود ممکن نہیں ہے۔ آخر میں، پھر آپ سے اس امر میں اتفاق کااظہار کروں گا کہ یہ کام حکمت کے ساتھ ہونا چاہیے۔                  (مئی ۱۹۶۱ءج۲۶ش۵)