عورتوں کے لیے رمی جمار میں رخصت

,

ہرسال حاجیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہاہے جس کی وجہ سے بہتر انتظامات کے باوجود جمرات پررمی کےلیے ازدحام رہتا ہے۔ کیا ازدحام کی وجہ سے کوئی مرد کسی صحت مند عورت کی طرف سے رمی جمارکرسکتاہے؟

جواب

کتب احادیث اور کتب فقہ میں میری نظر سے یہ بات تو نہیں گزری کہ کوئی مرد کسی صحت مند عورت کی طرف سے محض ازدحام کی وجہ سے رمی کرسکتا ہے۔ البتہ یہ بات احادیث اور کتب فقہ سے معلوم ہوتی ہے کہ عورتیں رمی جمار کو مسنون وقت سے پہلے یا اس کے بعد ازدحام کی بناپر رمی کرسکتی ہیں۔  مثال کے طورپر وہ مزدلفہ سے رات ہی کے وقت منیٰ آکر ۱۰؍ذی الحجہ کو طلوع فجر یا طلوع شمس سے پہلے رمی کرسکتی ہیں یا اس دن کی رمی کو رات تک موخر کرسکتی ہیں۔  فقہ حنفی کی کتابوں میں بھی عورتوں کے لیے اس رخصت کی صراحت موجود ہے۔

عورتیں تو خیرصنف ضعیف ہیں، فقہ حنفی کی کتابوں میں یہ بھی موجود ہے کہ اگر کوئی مرد ازدحام کے خوف سے وقوف مزدلفہ ترک کرکے رات ہی کو منیٰ چلاجائے تو یہ کوئی جرم نہیں ہے۔  اس کی وجہ سے اس پر صدقہ کرنا یا اسی طرح کی اور کوئی چیز واجب نہ ہوگی۔ درمختار اور دوسری کتابوں کی بعض عبارتوں کی تشریح کرتے ہوئے علامہ ابن عابدین شامی نے دوباتیں لکھی ہیں 

ایک یہ کہ ازدحام کا خوف جس طرح مزدلفہ سے منیٰ جانے میں پیش آتا ہے۔ اسی طرح رمی جمار کے وقت بھی پیش آتا ہے۔ اور دوسری بات یہ لکھی ہے کہ خوف ازدحام کو صرف مریضوں، ضعیفوں اور عورتوں کے لیے عذر تسلیم کرنا بہترہے۔ یعنی کسی تندرست مرد کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ازدحام کے خوف سے وقوف مزدلفہ ترک کرکے منیٰ چلاجائے اور وقت مسنون سے پہلے رمی کرلے۔

یوم النحر ۱۰؍ذوالحجہ کو جمرۂ عقبہ کی رمی کا وقت مسنون طلوع آفتا ب سے زوال کے وقت تک ہےاور وقت مباح زوال سے غروب آفتا ب تک اور وقت مکروہ غروب آفتاب سے ۱۱؍ذوالحجہ کی صبح تک ہے۔ لیکن یہ کراہت واساءت اس وقت ہوگی جب کوئی شخص بلاعذر ایسا کرے۔ اگر عذر کی وجہ سے کوئی شخص ۱۰؍ذوالحجہ کو رات کے وقت رمی کرتا ہے تو یہ اس کے لیے مکروہ نہیں ہے۔ شامی کی عبارت یہ ہے

ھذا عندعدم العذ رفلااساءۃ برمی الضعفہ قبل الشمس ولا برمی الرعاہ لیلا کما فی الفتح۔

’’یہ عدم عذر کی حالت میں ہے۔ لہٰذا طلوع آفتا ب سے پہلے کمزور لوگوں کی رمی میں اساءت نہیں ہے اور نہ رات کے وقت چرواہوں کی رمی میں کوئی اساءت ہے۔ جیسا کہ فتح القدیر میں ہے۔‘‘

احادیث وسیر کی کتابوں میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل وعیال کے کمزور لوگوں کو رات ہی کے وقت منیٰ بھیج دیا تھااور یہ بھی موجود ہے کہ حضورؐ نے حضرت ام سلمہؓ کو بھی اس کی اجازت دی تھی۔ چناں چہ وہ رات ہی کو منیٰ گئیں اور طلوع فجر سے پہلے انھوں نے رمی کی۔ رعاۃ یعنی چرواہوں کو یہ رخصت دی گئی تھی کہ وہ منیٰ سے باہر قیام اوررات کو رمی کرسکتے ہیں۔  ان کو یہ رخصت بھی دی گئی تھی کہ وہ دونوں کی رمی کو ایک دن میں جمع کرسکتے ہیں۔ امام شافعی واحمد رحمہمااللہ کے نزدیک ۱۰؍ذوالحجہ کو بلاعذر بھی طلوع فجر سے پہلے رمی کی جاسکتی ہے۔

ان تمام رخصتوں کو سامنے رکھ کر یہ قیاس کرنا دشوار نہیں ہے کہ عورتیں حسب سہولت جس وقت بھی ازدحام ختم ہو، رمی جمار کرسکتی ہیں اور اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ خودرمی کرنے سے محروم رہیں اور مردان کی طرف سے رمی کریں۔                         (اگست ۱۹۸۰ء،ج۶۵،ش۲)