عورت اور منصبِ قضا

کیا عورت قاضی یا جج ہوسکتی ہے؟ کیا حضورﷺ کے زمانے میں عورت قاضی یا جج رہی ہے یا یہ مسئلہ اجتہادی ہے؟
جواب

رسول اللہﷺ خود قاضی تھے۔ یہ آپ کے منصب رسالت کا ایک لازمی جزو تھا۔ تمام فیصلے آپ خود فرماتے اور آپ کا فیصلہ آخری ہوتا۔آپ کے مقرر کردہ عماّل اور گورنر آپ کے نائب کی حیثیت سے معاملات کے فیصلہ کیا کرتے تھے۔ ان میں کوئی خاتون نہیں تھیں ۔ البتہ رسول اللہﷺ اور خلفاء راشدین کے دور میں جو اصحاب احکامِ شریعت بیان کرتے یا فتویٰ دیتے ان میں خواتین بھی شامل تھیں ۔ ان میں ام المومنین حضرت عائشہؓ کا نام بہت نمایاں ہے۔ فقہائے کرام نے اس مسئلہ پر بحث کی ہے کہ عورت قاضی ہوسکتی ہے یا نہیں ؟ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے۔ بعض علماء اس کے جواز کے قائل نہیں ہیں ۔ احناف کی رائے یہ ہے کہ حدود و قصاص کے علاوہ دیگر امور میں اس کی شہادت قبول کی جاتی ہے۔ جن امور میں اس کی شہادت قبول کی جاتی ہے ان میں وہ فیصلہ بھی کرسکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض پابندیوں کے ساتھ وہ قاضی یا جج ہوسکتی ہے۔ اس پر مزید غور و فکر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔